
کيا عشق ايک زندگئ مستعار کا
کيا عشق ايک زندگئ مستعار کا
کيا عشق ايک زندگئ مستعار کا
کيا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس ميں مزا نہيں تپش و انتظار کا
ميری بساط کيا ہے ، تب و تاب يک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق ديکھ دل بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
يارب ، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
0 Response to "کيا عشق ايک زندگئ مستعار کا"
Post a Comment