
دس کہانیاں
پری کی بیٹی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پرستان میں ایک بے حد غریب پری اپنی بیٹی کے ساتھ ایک ٹوٹے پھوٹے سے گھر میں رہتی تھی- اس پری کا نام عذرا اور اس کی بیٹی کا نام شہناز تھا- کچھ عرصہ پہلے وہ لوگ کافی امیر تھے- عذرا پری کا شوہرتجارت کرتا تھا اور ان کے گھر میں خدا کا دیا سب کچھ موجود تھا-مگر پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عذرا پری کا شوہر بیمار پڑ گیا- بیماری اتنی بڑھی کہ اپنا کام وام چھوڑ کر وہ چار پائی سے لگ گیا-عذرا پری کو اپنے شوہر سے بے حد محبّت تھی- اس نے شوہرکی تیمارداری میں دن رات ایک کردیے- اس کی بیماری پر پیسہ پانی کی طرح بہایا مگر اس کے باوجود اس کا شوہر اسے اور ننھی پری شہناز کو اکیلا چھوڑ کر چلا گیا- ان کے پاس جتنا روپیہ پیسہ تھا وہ تو سب عذرا پری کے شوہر کی بیماری میں لگ گیا تھا- اس کے مرنے کے بعد وہ لوگ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے تھے-اپنی گزر بسر کے لیے عذرا پری نے چند گھروں میں جھاڑو برتن اور دوسرے کام شروع کردیے- اس طرح ماں بیٹی زندگی کےدن پورے کرنے لگیں- ان کے پڑوس میں ایک دیو بھی رہتا تھا جس کا نام کالا دیو تھا-جب عذرا پری کا شوہر بیمار تھا تو عذرا پری نے علاج کے لیے کالے دیو سے کچھ رقم قرض لی تھی- وہ رقم ابھی تک ادا نہیں ہوئی تھی-کالا دیو ہر روز عذرا پری سے اپنی رقم کی واپسی کے لیے اصرار کرتا تھا- مگر عذرا پری کے پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی- وو کالے دیو کو اس کی رقم کہاں سے لا کر دیتی- کالا دیو اسکا انکار سن کر منہ بنا کر چلا جاتا تھا- ایک روز وہ پھر عذرا پری کے گھر آیا- اس روز وہ بہت غصے میں معلوم دیتا تھا- اس نے آتے کے ساتھ ہی پانی کے گھڑے پر ایک لات ماری اور دھم سے جو چار پائی پر بیٹھا تو چارپائی کی پٹی ہی ٹوٹ گئی- عذرا پری سہم کر ایک کونے میں دبک گئی- اس کی بیٹی شہناز پری نے خوفزدہ انداز میں کہا- امی جان! چارپائی ٹوٹ گئی- اب رات کو ہمیں زمین پر سوناپڑے گا۔
کالا دیو غصے سے بولا-عذرا پری اگر مجھے یہ پتہ ہوتا کہ تم میری رقم واپس کرنے کا نام ہی نہیں لوگی تو میں تمہیں کبھی بھی رقم ادھار دینے پر راضی نہیں ہوتا- تم مجھے کیا سمجھتی ہو جو میری رقم ادا کرنے کا نام ہی نہیں لیتی ہو-عذرا پری گڑ گڑا کر بولی-بھیا کالے دیو- میری آمدنی بہت کم ہے- ہمارا ہی گزارہ مشکل سے ہوتا ہے-کالے دیو نے عذرا پری کی بیٹی شہناز پری کا ہاتھ پکڑ ا اوراسے اپنے ساتھ لے جاتے ہوۓ بولا-جب تک تم میرے پیسے واپس نہیں کرو گی- میں تمہاری بیٹی کو اپنے گھر میں نوکرانی بنا کر رکھوں گا- میرے گھر کی صفائی،کھانا پکانا، جھاڑو دینا، برتن دھونا، پودوں کو پانی دینا اور کپڑوں کی دھلائی- یہ تمام کام اب تمہاری لڑکی انجام دے گی-عذرا پری کالے دیو کے سامنے گڑگڑانے لگی مگر اس کا دل ذرا بھی نرم نہ ہوا- وہ شہناز پری کو اپنے ساتھ لے کر اپنے گھر چلاآیا- اس کا گھر بہت بڑا تھا- اس میں آٹھ بڑے بڑے کمرے تھے اورایک بہت وسیع باغ تھا- شہناز پری کو کالے دیو کا گھر پسند آگیا-شہناز آٹھ دس برس کی ایک ذہین لڑکی تھی- اس نے سوچا کہ اگر وہ کالے دیو کا حکم نہیں مانے گی، یا اس کے گھر سے بھاگ جائے گی تو وہ جا کر اس کی امی کو تنگ کرے گا- اس لیے وہ چپ چاپ کالے دیو کا ہر کام کرنے لگی- صبح اس کے لیے ناشتہ بناتی،دوپہر کا کھانا پکاتی- اور پھر گھر کے دوسرے کاموں میں جت جاتی- ان کاموں سے فارغ ہوتی تو شام کے کھانے میں لگ جاتی- کالے دیو کو بھوک بہت لگتی تھی- شہناز پری کے آجانے سے کالے دیو کو بہت آرام ہوگیا تھا- پہلے اسے اپنا ہر کام خود ہی کرنا پڑتا تھا- مگر اب اسے کھانا بھی پکا پکایا مل جاتا تھا اور کپڑے بھی دھلے دھلائے مل جاتے تھے- نہ جھاڑو دینا پڑتی تھی اور نہ برتن دھونا پڑتے تھے- اب وہ سارا دن مزے سے اپنے باغ کی ہری ہری گھاس پر ٹانگ پر ٹانگ دھرے آرام سے لیٹا رہتا تھا-ایک روز وہ اپنے باغ میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ہی اس کی نظریں کھجور کے درختوں پر پڑیں- ان درختوں میں کھجورلگے ہوۓ تھے اور پک گئے تھے- پکے ہوۓ کھجوروں کو دیکھ کر کالے دیو کے منہ میں پانی بھر آیا- وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پھر ایک کھجور کے درخت پرچڑھنے لگا- ابھی اس نے آدھا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک اس کا ہاتھ شہد کی مکھیوں کے چھتے سے ٹکرا گیا- ہزاروں مکھیاں بھنبھناتی ہوئی اس کی طرف لپکیں- کالا دیو شہد کی مکھیوں سےبہت ڈرتا تھا- انھیں اپنی طرف لپکتا دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے- اس کے منہ سے چیخ نکلی اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے اس کے ہاتھوں سے درخت کا تنا بھی چھوٹ گیا- اور وہ دھڑام سے زمین پر گرا- اس کے گرنے کا دھماکہ بہت زور سے ہوا تھا- شہناز پری کالے دیو کی پھٹی ہوئی قمیض سی رہی تھی- وہ بھی یہ دھماکہ سن کر چونک پڑی- وہ بھاگ کر کر جو کھڑکی کے قریب آئ تو اس نے کالے دیو کو زمین پر گرا دیکھا- وہ جلدی سے باغ میں گئی- کالا دیو درد کے مارے کراہ رہا تھا- اس نے اپنی ایک ٹانگ کی پنڈلی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا اور اپنا بڑا سا منہ پھاڑ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا- شہناز پری اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی- کالے دیو نے اپنی قمیض کی آستین سے اپنی ناک پونچھی اوربھرائی ہوئی آواز میں بولا- اتنی بلندی سے سر کے بل گرا ہوں، سر بہت مضبوط ہے- اسے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا ہے- مگر ہائے میری ٹانک ٹوٹ گئی ہے- شہناز پری اب میں چلوں پھروں گا کیسے؟- مجھے اپنے گناہوں کی سزا مل گئی ہے- میں نے بہت لوگوں کے دل دکھائے ہیں-اسی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے- یہ کہہ کر کالا دیو پھر رونے لگا-شہناز پری نے اسے تسلی دی اور اسے بڑی مشکلوں سے اس کے کمرے میں لائی- کالا دیو اپنے بستر پر لیٹ کر ہائے ہائے کرنے لگا-تھوڑی دیر بعد اس نے کہا- " شہناز پری تمہاری نانی کے پاس جادو کامرہم ہے- اس کے لگانے سے میری ٹانگ ٹھیک ہوسکتی ہے- مگر مجھے یقین ہے کہ میرے گڑگڑانے کے باوجود بھی مجھے وہ مرہم نہیں دیں گی- وہ مجھ سے بہت ناراض ہیں- کیوں کہ آج سے چند سال قبل انہوں نے اپنے کھیتوں میں پانی دینے کے لیے اپنے گھر کے پاس ایک بہت گہرا کنواں کھدوایا تھا- وہ علاقہ چونکہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیے کنواں بہت مشکل سے کھودا گیا تھا- مگرمیں نے شرارت کرنے کی نیت سے اس کنویں میں دوبارہ مٹی اور پتھر بھر دئیے تھے- میری یہ حرکت تمھاری نانی نے دیکھ لی- اس دن سے وہ میری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتیں-اتنا کہہ کر کالے دیو نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور خاموش ہوگیا- اس کے بعد اسے نیند آگئی- شہناز پری بہت رحمدل تھی- حالانکہ کالے دیو نے اس کا اوراس کی ماں کا دل دکھایا تھا-مگر اس کی ٹانگ کے ٹوٹ جانے کے بعد اسے کالے دیوسے ہمدردی سی ہوگئی تھی- اس کی خواہش تھی کہ کالا دیو پھر سے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے- اسے اب اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا تھا- جب کالا دیو سو گیا تو شہناز پری اس کے گھر سے نکلی اوراس نے ایک طرف کو اڑنا شروع کردیا- وہ اپنی نانی اماں کے گھرجا رہی تھی- تھوڑی دیر بعد وہ اپنی نانی اماں کے گھر پہنچ گئی- بڑھاپے کی وجہ سے نانی اماں بہت کمزور ہوگئی تھیں- انہوں نے شہناز پری کو دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا- شہناز پری نے نانی اماں کو بتایا کہ چونکہ اس کی امی نے دیو کا قرضہ واپس نہیں کیا تھا اس لیے وہ اس کو کام کاج کرنے کے لیے اپنے گھر لے آیا ہے- اب درخت پر گرنے کی وجہ سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے- اسے اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہوگیا ہے- وہ بہت تکلیف میں بھی ہے- اس لیے وہ ان کے پاس جادو کا مرہم لینے کے لیے آئ ہے تاکہ کالے دیو کا علاج کرسکے- نانی اماں دل کی بہت اچھی تھیں- حالانکہ اس دیو نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا مگر انہوں نے شہناز پری سے کہا- بیٹی میں تمہارے رویے سے بہت خوش ہوں- اگرچہ وہ دیواچھا نہیں ہے- اس نے تم لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے، مگراس کے باوجود تم اس کی مدد کرنا چاہتی ہو- یہ بہت اچھی بات ہے- مجھے یقین ہے کہ تمہارا اچھا سلوک دیکھ کر اسے مزید اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے گا- کہہ کر نانی اماں نے جھٹ ایک پرانی سی صندوقچی میں سے جادو کا مرہم نکال کر شہناز پری کو دے دیا اور بولیں-اگر میری طبیعت ٹھیک ہوتی تو میں بھی ہمارے ساتھ ہی چلتی- خیر اب تم جلدی سے اسے لے کر روانہ ہوجاؤ- اس کے لگاتے ہی دیو ٹھیک ہوجائے گا-نانی اماں نے شہناز پری کو رخصت کر دیا- نانی اماں سے رخصت ہو کر وہ پھر کالے دیو کے گھر پہنچی اور اسے جگا کر بولی- میں جادو کا مرہم لے آئی ہوں-کالا دیو تو خوشی کے مارے اچھل پڑا-شہناز پری نے اس کی پنڈلی پر جادو کامرہم لگایا تو تو کالا دیو پہلے کی طرح ہی بھلا چنگا ہوگیا- اس کا درد بھی غائب ہوگیا اوروہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا- اپنی ٹانگ کے ٹھیک ہوجانے پر اس کا خوشی سے برا حال تھا- وہ اپنے پورے گھر میں ناچا ناچا پھر رہا تھا- شہناز پری اس کی بچوں کی سی اچھل کود دیکھ کر ہنس رہی تھی-کالے دیو کو احساس تھا کہ شہناز پری نے اس کی زیادتیوں کہ بدلہ نیکی کی صورت میں دیا ہے- اسے اپنے پچھلے رویہ پر بے حد شرمندگی ہونے لگی تھی- اس نے عذرا پری اور شہناز پری سے اپنی تمام غلطیوں کی معافی مانگی اور عذرا پری کا قرض بھی معاف کردیا اور اسے اپنی طرف سے ایک تھیلی بھر کر اشرفیاں بھی دیں- اس کے علاوہ اس نے عذرا پری کو اپنی بہن بھی بنا لیا تھا اور ان دونوں کو اپنے ہی گھر میں لے آیا- عذرا پری کے دن پھر گئے تھے- اس نے دوسروں کے گھروں میں کام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا- اب وہ لوگ نہایت عیش و آرام سے رہنے لگے تھے- کالا دیو بے حد شریف بن گیا تھا- کالے دیو کی اس تبدیلی پر سارے لوگ حیران تھے- ان لوگوں کو کیا پتہ تھا کہ شہناز پری کی ایک ذرا سی نیکی کالے دیو کو راہ راست پر لے آئ تھی-اب وہ تینوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے-
روزہ رکھنے سے پہلے
ہر سال کی طرح اس بار بھی رمضان میں بہت سے بچے اپنا پہلا روزہ رکھیں گے اور وہ خاصے پُر جوش بھی ہوں گے ۔روزہ رکھنے سے پہلے نماز سیکھنی چاہیے اور پھر نماز کا پابند بننا ضروری ہے۔نماز دین اسلام کا پہلا رکن ہے ۔
جوہر مسلمان پر فرض ہے۔
روزہ اسلام کا ایک ایسا فرض رکن ہے،جس میں اخلاقی تربیت کا درس دیاجاتا ہے ۔جس کے اثرات رمضان المبارک کے بعد پورے سال نظر آتے ہیں ۔اس سے انسان کو اپنی بُرائیاں چھوڑنے کی ترغیب ملتی ہے۔جیسے جھوٹ بولنا بہت بُری بات ہے اور روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا تو بہت ہی سخت گناہ ہے ۔
جھوٹ نہ بولنے سے اللہ خوش ہوتاہے۔
اسی طرح کسی کو بُرا بھلا کہنا بھی بہت بُری بات ہے اور روزے میں گالی گلوچ کرنا تو بہت ہی بُرا ہے ۔
اس بُرائی سے ہر صورت بچنا ضروری ہے ۔کسی کو بُرا کہنا ہمارے دین کی تعلیم نہیں ہے۔
اس عادت سے نجات پانے کی ضرورکوشش کریں۔
غیبت کے بارے میں سخت تاکید کی گئی ہے کہ اس سے بچنا چاہیے۔غیبت کرنے والے کو اپنے بھائی کاگوشت کھانے والا کہا گیا ہے۔
فضول باتیں کرنا بھی بُری عادت ہے۔ہمیشہ اچھی اور مفید باتیں کرنی چاہیے۔
فضول باتیں کرنے سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا ہے۔ہمارے دین میں بھی فضول باتیں کرنے کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔فضول باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے یاکوئی کتاب پڑھ لی جائے۔
روزہ کی حالت میں جب انسان جھوٹ ،گالی گلوچ ،بُرا بھلا کہنا،غیبت اور فضول باتوں سے بچتا ہے اور رمضان بھر اس پر عمل کرتا ہے تو یہ اس کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے ۔
روزہ رکھنے سے پہلے،روزہ رکھنے کی دعا بھی ضرور یاد کرلیں ۔سحری کرنے کے بعد ،سحری کا وقت ختم ہوجائے تو دعا پڑھ لیں ۔یہ دعا روزے کی نیت ہے ۔اس کا پڑھنا ضروری ہے۔اس طرح روزہ کھولنے کی دعا بھی یاد کرنی چاہیے۔یہ دعائیں گھر میں کسی بڑے کو سنادیں تاکہ خوب یادہوجائیں۔
روزہ رکھنے سے پہلے روزے کے مقصدکو سمجھنا ،بُری باتوں کو چھوڑنا اور پھر دعائیں یاد کرنا چاہیے۔یہ روزہ رکھنے کی تیاری ہے۔روزے میں قرآن پاک پڑھنا بہت ثواب ہے۔اگر قرآن پاک ختم کر چکے ہیں تو روزانہ ایک پار ہ ضرور پڑھیں۔
جن بچوں نے قرآن پاک ختم نہیں کیا ہے ،تو وہ بھی ناظرہ پڑھیں جتنا پڑھ چکے ہیں۔
اس رمضان المبارک میں جو بچے روزہ رکھیں گے ،انھیں چاہیے کہ وہ آج ہی سے روزے رکھنے کی تیاری کریں۔روزہ کیسے رکھا جاتا ہے ،کب سے کب تک رکھنا ہوتا ہے ۔
روزے میں کن باتوں سے رکنا ضرور ہے اور کون کون سے کام ایسے ہیں ،جن کا ثواب ہے ۔ان سب باتوں کا جاننا بہت اہمیت رکھتا ہے اور جو بات سمجھ میں نہ آئے ،اسے گھر کے بڑوں سے پوچھ لینا چاہیے،تاکہ روزے کا اصل مقصد اور روزے کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
رمضان کے روزے گرمی کے موسم میں آرہے ہیں ۔اس لیے روزہ رکھنے والے بچوں کو چاہیے کہ وہ دوپہر کے وقت دھوپ میں باہر نہ نکلیں ،زیادہ وقت گھر میں رہیں ۔ظہر کی نماز کے بعد ضرور آرام کریں،کھیلنے کودنے کو دل چاہیے تو گھر میں ہی کھیلیں۔یہ احتیاط کرنی ضروری ہے ،تاکہ روزے میں تھکن محسوس نہ ہو۔ان تمام باتوں کو سمجھ لیں تو روزہ رکھنے میں مزہ آئے گا۔
عید کے جوڑے
عیدالفطر میں چند روز باقی رہ گئے تھے۔عاتکہ‘حمیدہ‘ثریا اور بھائی جان سلیم کے کپڑے سل کر آچکے تھے۔امی اور ابو نے نئے جوڑے نہیں سلوائے تھے ۔کچھ عرصہ قبل خانہ زاد بہن کی شادی ہوئی تھی جس میں انہوں نے دونئے جوڑے سلوائے تھے۔
”عاتکہ بیٹا!یہ میرے دونوں جوڑے استری کرکے رکھ دیں ۔نیلا جوڑا عید کی نماز اور بادامی دوسرے دن پہن لوں گی۔“امی نے عاتکہ سے کہا۔ابونے اپنے دونوں سوٹ ڈرائی کلینز سے استری کروالئے تھے۔
امی عید کے لئے ایک نیاسوٹ تو سلوالیں ۔
ثریا نے امی سے کہا۔بیٹا!عید کے لئے جوڑے میرے پاس ہیں تیسرا کوئی جوڑا سلواکرمیں پیسے ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ہمیں عید میں فضول خرچی والا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے ۔
آپ بہن بھائیوں کے پاس عید میں پہننے والے کپڑے نہیں تھے۔اس لئے آپ کو بنوادےئے ہیں۔
“امی نے بات مکمل کی تو ثریا کہنے لگی۔” ہمیں ہر موقع فضول خرچی سے بچنا چاہئے ورنہ کئی لوگ توجمعة الوداع اور چاند رات کے لئے بھی الگ جوڑے بناتے ہیں اور صرف نئے کپڑے ہی نہیں بلکہ چاند رات کو تو ہمارے ہاں بازاروں اور میڈیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
“
ثریا کی باتیں سن کر عاتکہ نے بھی اپنی کہی ہاں”ثریا!مجھے یاد آیا کہ میری دوست نیہانے گزشتہ سال چاند رات کے لئے بھی قیمتی جوڑے بنوائے تھے۔اس میں تو کسی غریب بچے کے عید کے جوڑے بنائے جاسکتے تھے۔“گفتگو جاری تھی کہ بھائی جان عصر کی نماز پڑھ کر ہاتھ میں اخبار لئے گھر میں داخل ہوئے۔
”السلام وعلیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بھائی جان“۔تینوں بہنوں نے انہیں ایک ساتھ سلام کیا۔بھائی جان نے بھی مسنون طریقے سے جواب دیا۔ان کے ہاتھ میں اخبار کا رنگین صفحہ تھا۔بہنوں کو عید کی باتیں کرتا دیکھ کر انہوں نے با آواز بلند ایک مضمون کی سرخی پڑھی۔
”کراچی میں مخیرحضرات کی جانب سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر افطاری کا اہتمام ‘ضرورت مندوں میں عید کے کپڑے بھی تقسیم کئے گئے“۔یہ نیکی تشہیر کے لئے نہیں کی گئی تھی اس لئے اس مضمون میں کہیں کسی کانام نہیں تھا ۔بھائی جان نے بلند آواز سے کہا”رمضان المبارک کا موسم بہار ہے۔
روزہ داروں کو روزہ کھلوانا اور غریبوں کو رمضان میں راشن اور عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لئے عید کے جوڑے سلوا کر دینا بہت بڑی نیکی ہے ۔ہمیں بھی اس میں حصہ لینا چاہئے“۔بہنوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی ۔فرزانہ آپی ہاتھ میں چاول کا ٹرے لئے ان کے پاس آگئیں۔
”آج آپ سب کے لئے مٹر والے چاول پکائے جائیں گے“۔ان کے گھر میں افطاری کھجور اور پانی سے کرکے مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھایا جاتا تھا۔اس طرح انہیں رمضان المبارک کے لئے الگ سے راشن خریدنے یا افطاری کا اہتمام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی اور ساتھ ہی قرآن پاک پڑھنے کا وقت بھی مل جاتا تھا۔
امی نے اس سال گھر میں خواتین کے لئے تروایح پڑھنے کا اہتمام بھی کیا تھا ۔امی ان کی باتیں سن کر کچن سے باہر آئیں اور کہنے لگیں”نیکی میں دیر کیسی․․․․․․؟آپ سب اپنے عید کے جوڑوں میں سے ایک ایک جوڑا کسی ضرورت مند کو دے دیں۔اللہ تعالیٰ رمضان میں نیکی کا اجر بڑھا کر دیتے ہیں “۔تھوڑی ہی دیر میں سب نے اپنا عید کا ایک ایک سوٹ لا کر امی کے سامنے رکھ دیا۔
عجیب عجیب درخت
درختوں کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔خصوصاً اس جدید دور میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں میں ان کی ضرورت واہمیت بڑھ گئی ہے ۔یہاں چند عجیب وغریب درختوں کے بارے میں دل چسپ معلومات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔
روٹی کا درخت:
یہ دنیا کی حیرت انگیز نعمتوں میں سے ایک ہے۔یہ بحرا لکاہل کے جزیروں پر پایا جاتا ہے ۔ان درختوں پر گول گول پھل لگتے ہیں،جوروٹی کی طرح کے ہوتے ہیں ۔اس پھل کا وزن تقریباً ڈیڑھ کلو ہوتا ہے ۔ہر سال آٹھ ماہ تک برابر اس سے یہ پھل توڑے جا سکتے ہیں ۔
ان جزائرکے لوگ اسی قدرتی روٹی پر گزربسر کرتے ہیں ۔ہم لوگ پہلے آٹا گوندھتے ہیں،پھر آگ پر روٹی پکاتے ہیں ،جب کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس درخت کے ذریعے پکی پکائی روٹی عطا کی ہے ،جو انھیں بغیر کسی محنت کے مل جاتی ہے ۔
اس درخت سے ان لوگوں کو اور بھی بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
ان کے تھال اس درخت کی لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔اس کی چھال سے یہ لوگ اپنے کپڑے بناتے ہیں۔اس درخت کے تنے سے یہ اپنے ڈونگے بناتے ہیں۔
پانی برسانے والا درخت:
انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے،جو پانی برساتا ہے ۔
دراصل یہ آبی بخارات کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس درخت کے نیچے کوئی بالٹی وغیرہ رکھ دی جائے تو تھوڑی دیر میں پانی بھر جاتا ہے ۔لوگ اس پانی کو شوق سے پیتے ہیں،کیوں کہ یہ عام پانی سے میٹھا ہوتا ہے۔
جڑواں درخت:
آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہوگی کہ کیلی فورنیا میں آسٹرچ کا ایک عجیب عجیب جڑواں درخت موجود ہے،جودیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔
اس درخت کے تنے قدرے فاصلے پر ہیں،جب کہ باقی شاخیں آپس میں جُڑی ہوئی ہیں۔
گھومنے والا درخت:
وسطی افریقا کے”باسطی“نامی گاؤں میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ۔جوگھوم سکتا ہے۔تندوتیز طوفان اور بارش کے دوران دوسرے درختوں کی جڑیں اُکھڑ جاتی ہیں،لیکن اس درخت کی جڑیں چاروں طرف گھومتی ہیں ۔
یوں یہ درخت ہوا کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔مقامی لوگ درخت کی اس صورت حال کو دیکھ کر اسے ایک”مقدس درخت“قرار دیتے ہیں۔
روشنی والا درخت:
جاوا،انڈونیشیا میں ایک درخت موجود ہے ،جس کی اونچائی تقریباً سات فیٹ ہے۔
یہ درخت رات کے وقت چمکنے لگتا ہے اور کافی دور سے اس کی روشنی نظر آتی ہے۔سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے نیچے بیٹھ کرکوئی رسالہ یا کتا ب آسانی سے پڑھی جاسکتی ہے۔
بالوں والادرخت:
آسٹریلیا میں ایک ایسا درخت پایاجاتا ہے،جس کے پتے ریشے دار ہوتے ہیں،جو بالکل انسانی بال جیسے ہوتے ہیں۔
انسانی بالوں جیسے پتے ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگ اسے”ہےئر ٹری“یعنی بالوں والا درخت کہتے ہیں۔
لچک دار درخت:
بنگال کے اطراف میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ،جو طلوع آفتاب کے ساتھ بیدار ہوتا ہے اور سورج کے ساتھ ساتھ زمین سے اُٹھ کر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے ،لیکن جیسے جیسے سورج ڈھلتا جاتا ہے،یہ درخت بھی جھکنے لگتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی پوری طرح جھک جاتاہے۔
مسافر دوست درخت:
یہ درخت مشرقی افریقا کے قریب جزائرمڈغاسکر میں پایا جاتا ہے ۔یہ درخت ایک بلند وبالاستون کی شکل کا ہوتا ہے ،جس میں24عدد پنکھا نما پتے ہوتے ہیں۔یہ درخت مسافروں کے لیے کار آمد اور مفید ہونے کی وجہ سے TRAVELLER TREEکہلاتا ہے ۔
ہر پتے کے نیچے ایک پیالہ نما حصہ ہوتا ہے ،جس پر وہ پتا ہر وقت سایہ کیے رہتا ہے ۔اس میں گلاس بھر نہایت میٹھاپانی ہوتا ہے ۔مسافر اس پیالے میں چھوٹا ساسوراخ کرکے پانی حاصل کرتے اور اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
ڈبل روٹی کے ذائقے والا درخت:
بریڈ فورڈجزائر غریب الہند میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ،جس کی شاخوں کو چھلکا اُتار کر ڈبل روٹی کی طرح کاٹ کر کھایا جاتا ہے ۔
اس کی شاخوں کا مزہ بھی ڈبل روٹی جیسا ہی ہوتا ہے۔
موم بتی کی شکل کا درخت:
پانامہ کے علاقے میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے ،جس کی شکل موم بتی سے ملتی جلتی ہے ۔یہ چار فیٹ کے قریب اونچا ہوتا ہے اور اس کے رس سے موم بتی بنائی جاتی ہے۔
حقیقی خوشی
زینب ایک بڑے سے بنگلے کے مالک وقاص کی چہیتی بیٹی تھی سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسے ماں باپ سے زیادہ پیار ملاوہ ضد کی پکی اور اپنی بات منوانے کی عادی ہوگئی تھی ۔عید کی آمد میں صرف چند روز باقی تھے اسی وجہ سے زینب نے خریداری شروع کردی۔
زینب نے اپنی سہیلیوں سے ایک شرط لگا رکھی تھی وہ یہ کہ اس عید پر کون سب سے زیادہ خوبصورت اور اچھی نظر آئے گی۔زینب اپنی پھپھو کے ساتھ بازار گئی اور ایک مہنگی فراک خریدلائی۔دوسرے دن پھر بازار گئی اور بچوں والی جاذب نظر ساڑھی لے لی۔
اسی طرح یہ سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا اور زینب نے اپنی پوری الماری نئے کپڑوں سے بھرلی۔اس کے ابو کاروباری معاملات میں الجھے رہتے جبکہ امی آرام طلب خاتون تھیں۔
اس سے باز پرس کرنے والاکوئی تھا نہیں اسی لیے زینب نے حد سے زیادہ شاپنگ کرلی اس کی پوری کوشش تھی کہ شرط صرف وہی جیتے اور اپنی سہیلیوں پر رعب جمائے۔
عید آنے میں تین چار دن رہ گئے اور اس کی بھی بس ہوگئی۔زینب کے بنگلے میں ایک پرانی ملازمہ کام کرتی تھی۔اس کی ایک بیٹی تھی جو زینب کی عمر کی تھی۔اس کا نام اقصیٰ تھا۔اس کی ما ں نے اسے ایک سرکاری سکول میں داخل کروایا ہوا تھا کہ وہ کچھ پڑھ لکھ جائے۔
دونوں ماں بیٹی کا اس بھری دنیا میں کوئی نہیں تھا اور وہ زینب کے بنگلے کے پچھلے حصے میں تعمیر کردہ چھوٹے سے کوارٹر میں رہتی تھیں۔اس کی ماں کسمپرسی کی حالت میں زینب کے گھر کی جھاڑ پونچھ کیا کرتی تھی۔سکول سے واپسی کے بعد اقصیٰ بھی صفائی میں اس کی مدد کر دیتی۔
روزہ افطار ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا اور زینب کو روزہ لگ رہا تھا۔وہ ٹہلتے ہوئے اپنی ملازمہ کے کوارٹرکے پاس سے گزری کوارٹر میں اقصیٰ اپنی ماں سے نئے جوتوں اور کپڑوں کی فرمائش کررہی تھی اس کی ماں اسے سمجھا رہی تھی کہ ہم غریب لوگ ہیں ہماری قسمت میں نئے کپڑے اور جوتے کہاں؟دووقت کی روٹی نصیب ہو جائے تو ہمارے لئے یہی عید ہے ۔
اقصیٰ یہ سن کر رونے لگی تو ماں نے اسے جھوٹی تسلی دلادی کہ وہ کچھ کرے گی۔زینب کو یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا افطاری کے بعد زینب نے اپنے لئے خریدے گئے کپڑوں اور جوتوں میں سے ایک ایک جوڑا نکالا اور اقصیٰ کی ماں کو بلا کر بولی‘ماں جی یہ رکھ لیں میری طرف سے آپ کی بیٹی کے لئے عید کا تحفہ ہے اور اقصیٰ کو مت بتائیے گا میں نے دیا ہے۔
اس کی ماں تشکربھر ے انداز میں اس کا ماتھاچوم لیا۔عید والے دن زینب کی سہیلیاں اسے ملنے آئیں تو اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئیں کیونکہ وہ ایک سادہ سا لباس زینب تن کیے ہوئے تھی سہیلیوں کے پوچھنے پر اس نے انہیں ساراواقعہ سنا دیا۔
اس کی تمام سہیلیوں نے اس کے جذبے کو سراہا اور اسے شرط کی فاتح قرار دے دیا۔ساتھیوہمارے آس پاس یقینا کئی ایسے بچے ہوں گے جو ہماری امداد کے منتظر ہیں ہمیں چاہئے کہ ان سب کو اپنی خوشیوں میں شریک کرلیں تاکہ عید کی حقیقی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
زیادہ اچھا کون؟۔۔تحریر:مختاراحمد
آفتاب، ولید اور ثمینہ کے امی ابّو اتنے ہی اچھے تھے جتنا کہ سب بچوں کے امی ابّو ہوتے ہیں- دوسرے ماں باپوں کی طرح ان کی بھی یہ ہی خواہش تھی کہ ان کے بچے خوب آرام سے زندگی گزاریں، پڑھیں لکھیں، کھیلیں کودیں اور بڑے ہو کر ایک کامیاب انسان بنیں اور اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لیں- ان تینوں بچوں کی ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ان کے ماں باپ پڑھے لکھے تھے- پڑھائی لکھائی انسان کو زیادہ سمجھ بوجھ اور عقل عطا کرتی ہے- ان کے ابّو ثاقب صاحب ایک کمپنی میں کام کرتے تھے- ان کی تنخواہ بہت اچھی تھی اور انہوں نے اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخلہ دلوا رکھا تھا- ان کی خواہش تھی کہ وہ خوب تعلیم حاصل کریں- ثاقب صاحب گھر کے کاموں میں اپنی بیوی تسلیمہ کا ہاتھ بٹانے میں کوئی شرم یا جھجک محسوس نہیں کرتے تھے- تسلیمہ اگر کپڑے دھو رہی ہوتی تو وہ اس کام میں بھی اس کا ہاتھ بٹاتے تھے- اس کے علاوہ وہ گھر کی صفائی ستھرائی میں بھی لگے رہتے تھے- انھیں یہ فکر بھی رہتی تھی کہ بچوں نے اسکول کا کام کیا ہے یا نہیں- رات کو سونے سے پہلے وہ اپنے تینوں بچوں کو ساتھ لے کر گھر کا ایک چکر لگاتے تھے جس سے یہ اطمینان ہو جاتا تھا کہ کھڑکی دروازوں کی کنڈیاں ٹھیک سے بند ہیں یا نہیں- وہ چاہتے تو یہ کام خود اکیلے بھی کر سکتے تھے مگر ان تینوں کو ساتھ رکھنے کا یہ مقصد ہوتا تھا کہ ان میں بھی احساس ذمہ داری پیدا ہوجائے اور اپنی آئندہ زندگی میں وہ اس طرح کی چیزوں کا خود ہی دھیان رکھیں- ان کی ان عادتوں کا بچوں نے بھی گہرا اثر لیا تھا- ان کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آگئی تھی کہ گھر کے کسی کام کو کرنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیے- جب وہ لوگ اپنے اسکول کے کام سے فارغ ہوجاتے تو ان کی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ گھر کے کاموں میں اپنی امی کا ہاتھ بٹائیں- ان کی اس عادت سے ان کی امی کی بہت مدد ہوجاتی تھی- ان کو وہ تھکن بھی نہیں ہوتی تھی جو ان بچوں کی امیوں کو ہوجاتی ہے جو گھر کے کسی کام میں ہاتھ نہیں لگاتے اور ان کی امیوں کو اکیلے ہی سارے کام کرنا پڑتے ہیں- ثاقب صاحب کے تینوں بچوں میں یہ عادت بھی تھی کہ کھانے کے بعد اپنے اپنے برتن خود دھو کر ان کو قرینے سے ان کی جگہ پر رکھتے تھے- یہ سب انہوں نے اپنے ابّو کو دیکھ کر سیکھا تھا- ثاقب صاحب گھر میں سب کے دوست بن کر رہتے تھے- ان کی اس عادت نے ان کے بچوں میں ایک خود اعتمادی پیدا کر دی تھی- بارش ہوتی تو وہ بچوں کے ساتھ کاغذ کی ناؤ بنا بنا کر بہتے پانی میں تیراتے- کنچوں کا موسم آتا تو رنگ برنگی کانچ کی گولیوں سے بچوں کے ساتھ لان میں کھیلتے- ان کی بیٹی ثمینہ کو رسی کودنے کا شوق تھا جیسا کہ اس عمر کی دوسری تمام لڑکیوں کو ہوتا ہے- وہ اس کے ساتھ اس کھیل میں بھی شریک ہوجایا کرتے تھے- ایک دفعہ تو انہوں نے درخت کی لکڑیوں سے ایک چھوٹا سا گلی ڈنڈا بھی بنایا تھا اور انھیں بتایا تھا کہ اپنے بچپن میں وہ دوستوں کے ساتھ کیسے گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے- انھیں بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے میں کسی قسم کی کوئی جھجک یا پریشانی محسوس نہیں ہوتی تھی- ان کی بیوی تسلیمہ بھی بچوں کے ساتھ بہت اچھی طرح سے پیش آتی تھی جس کی وجہ سے بچے اس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ لیا کرتے تھے- بچے جب ہر اچھی بری بات اپنی ماں سے کہہ دیتے ہیں تو یہ عادت ان کے اپنے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوتی ہے- ماں جہاں ضروری سمجھتی ہے انھیں نصیحت بھی کر دیتی ہے اور ان کی اچھی باتوں پر شاباش بھی دیتی ہے- اس سے بچوں میں اچھی بری باتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز ان کی تربیت میں بہت کام آتی ہے- اس طرح کے دوستانہ ماحول میں زندگی گزارنا بہت اچھا ہوتا ہے- اس سے گھر میں اتفاق، ایثار اور محبت برقرار رہتی ہے- ایک روز چھٹی والے دن ثاقب صاحب تسلیمہ کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوۓ تھے- ان کے ہاتھ میں اخبار تھا مگر وہ اسے پڑھ نہیں رہے تھے، بلکہ اسے ہاتھ میں لیے کچھ سوچ رہے تھے- تسلیمہ دوپہر کو پکانے کے لیے سبزی کاٹنے ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی- اچانک ثاقب صاحب نے کہا "بیگم- میرے ذہن میں ایک بات آئ ہے- میرا یہ خیال ہے کہ بچے مجھ سے زیادہ تم سے محبّت کرتے ہیں اور تم سے زیادہ قریب ہیں"- ان کی بات سن کر تسلیمہ ہنس پڑی- "یہ آپ نے کیسے سوچ لیا؟ پتہ ہے جب آپ آفس گئے ہوۓ ہوتے ہیں تو سب آپ کو ہی یاد کرتے ہیں- مجھے تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے"- "یہ تو خیر تم میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہی ہو- مگر حقیقت وہ ہی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں"- ثاقب صاحب نے کہا- "وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا"- تسلیمہ نے بات ختم کرنے کی غرض سے کہا- "وہم تو ایک ذہنی بیماری ہوتی ہے- میں اس کی بات نہیں کررہا- میں تو ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں اور اس کا علاج میرے پاس ہے"- "اس علاج کا ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے"- تسلیمہ نے دلچسپی سے پوچھا- ثاقب صاحب نے ادھر ادھر دیکھ کر دھیرے سے کہا "ہم اس کے لیے بچوں سے ووٹ ڈلوا لیتے ہیں- خفیہ رائے شماری ہوگی- پتہ چل جائے گا کہ بچے تم سے زیادہ محبّت کرتے ہیں یا مجھ سے- ان کی نظروں میں زیادہ اچھا کون ہے میں یا تم- مگر دیکھو جب تک ساری تیاری مکممل نہ ہوجائے، یہ بات بچوں کو پتہ نہیں چلنی چاہیے"- "ٹھیک ہے- میں کھانا پکا لوں- کھانا کھا کر ہم رائے شماری کر والیں گے- آپ کی غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی- اور یہ بات بھی ثابت ہوجائے گی کہ آج کل کے بچے ماں کو تو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں، ان کے باپ ہی ان کے لیے سب کچھ ہوتے ہیں-"- تسلیمہ نے اٹھتے ہوۓ کہا- ثاقب صاحب خاموشی سے گھر کے اوپر والے پورشن میں جا کر ایک کمرے میں ووٹنگ کا انتظام کرنے میں مصروف ہوگئے- بچے باہر برآمدے سے کھیل کر گھر میں آئے تو انھیں کئی پراسرار باتیں محسوس ہوئیں- امی خاموشی سے کام میں لگی ہوئی تھیں انھیں دیکھ کر بھی انہوں نے کوئی بات نہیں کی- ابو بھی کہیں نظر نہیں آ رہے تھے- ان کی تلاش میں وہ اوپر گئے تو انھیں دیکھ کر ابّو نے کہا – "تم سب نیچے ہی رہو میں کچھ کام کر رہا ہوں"- بچے سوچ میں پڑ گئے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کہا کہ ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے- وہ چونکہ اچھے بچے تھے اس لیے انہوں نے زیادہ کرید مناسب نہیں سمجھی اور خاموشی سے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ٹی وی پر کارٹون دیکھنے لگے- کھانا بڑی خاموشی سے کھایا گیا- حالانکہ تسلیمہ نے سبزی پکائی تھی مگر کھانا کھاتے ہوۓ کسی بچے نے ناک بھوں نہیں چڑھائی- کھانے کے بعد ثاقب صاحب نے کہا- "بچو- ہمارے سامنے ایک اہم سوال کھڑا ہوگیا ہے- اگر ہم اس سوال کا جواب تم لوگوں سے زبانی پوچھیں گے تو تم لوگ گڑ بڑا جاؤ گے اور حقیقت بیان کرنے سے گھبراؤ گے- اس لیے ہم نے اس سلسلے میں رائے شماری کروانے کا فیصلہ کیا ہے"- "ویری گڈ"- آفتاب نے کہا- "کھیل تو دلچسپ معلوم دیتا ہے- رائے شماری کے بارے میں تو میں یہ جانتا ہوں کہ اس میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، جیسا کہ الیکشن کے وقت ہوتا ہے- کیا ہمیں ووٹ ڈالنا پڑیں گے اور کیا آپ اور امی بھی اس رائے شماری میں حصہ لیں گے؟"- "نہیں- ہم تو منتظمین میں سے ہونگے- ووٹ تم تینوں ہی ڈالو گے- ہم ابھی اوپر کمرے میں چلیں گے- تمہیں تمھاری امی ایک ایک پرچی دیں گی- اس پرچی میں دو خانے بنے ہوۓ ہیں- ایک خانے میں "امی" لکھا ہوا ہے دوسرے میں "ابو"- اگر تم امی کو زیادہ پسند کرتے ہو تو ان کے خانے میں اپنے انگوٹھے کا نشان لگادینا اور اور تمہیں ابو زیادہ پسند ہوں تو ان کے خانے میں- ویسے تو ووٹوں پر اسٹیمپ لگانا پڑتی ہے مگر اتنی جلدی ہم اس کا انتظام نہیں کرسکے"- ثاقب صاحب نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا- بچوں کو یہ ایک دلچسپ کھیل لگا تھا- وہ پرجوش نظر آنے لگے- ان کے ابو نے کہا- "ایک اور بات کا بھی دھیان رہے کہ تم لوگ اس سلسلے میں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرو گے- یہ چیز تمہارے اپنے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہے"- تینوں بچوں نے اس کی حامی بھرلی اور اس کا ثبوت یوں دیا کہ اس ووٹنگ کے بارے میں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی- تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اوپری منزل پر پہنچے- کمرے کے باہر تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں- تینوں بچے ایک ایک کرسی پر بیٹھ گئے- اندر کمرے میں ان کی امی ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھیں اور خوش اخلاقی سے مسکرا رہی تھیں- ولید نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے کمرے میں جھانکا اور شرارت سے بولا- "امی آج پہلی مرتبہ آپ کو اتنے پیار سے مسکراتے ہوۓ دیکھا ہے"-اس کی امی بھی اسی کے انداز میں بولیں- "غلط فہمی میں مبتلا مت ہوجانا- جس سیٹ پر میں بیٹھی ہوں اس کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خوش اخلاق نظر آوں"- ثمینہ نے اٹھ کر کمرے کے اندر جھانکا- ایک کونے میں ایک میز رکھی تھی اور ایک کپڑے کی چادر تان کر اس کے گرد ایک آڑ سی بنا دی گئی تھی- اس میز پر اسی کی ٹین کی ڈھکن والی گولک رکھی تھی- اس گولک میں انھیں ووٹ ڈالنا تھا- گولک کے قریب ایک اسٹیمپ پیڈ رکھا تھا تاکہ بچے اس پر انگوٹھا رکھ کر اس کی سیاہی کی مدد سے ووٹ پر نشان لگا سکیں- انتظامات بہت اچھے تھے- ایک رجسٹر میں ان تینوں کے نام لکھے ہوۓ تھے- اپنے اپنے ناموں کے آگے انہوں نے اپنے انگوٹھے کے نشانات لگائے- ان کی امی نے انھیں ووٹ کی پرچی دی- جنہیں لے کر باری باری وہ کونے میں رکھی ہوئی میز کے قریب آئے اور ان پر انگوٹھے کے نشانات لگا کر میز پر رکھی گولک میں ڈال دیا - جب تمام ووٹ کاسٹ ہوگئے تو ان کے ابو نے گولک اٹھا کر کھولا اور تینوں پرچیاں نکال کر اپنی بیگم کے حوالے کردیں اور بولے- "یہ شاید دنیا کا پہلا انتخاب ہے جس میں ہنڈریڈ پرسنٹ ووٹروں نے اپنا ووٹ ڈالا ہے- جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہیں"- "میں تو بہت ہی سنسنی خیزی محسوس کر رہی ہوں- بچوں نے ہم دونوں میں سے جانے کس کو پسند کیا ہوگا اور کس کو ناپسند- میں تو ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے رہتی تھی"- "میری بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے- میں نے بھی بہت غور کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرا بھی رویہ بچوں کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہی رہا ہے"- ان کے ابو نے کہا- اس دوران تسلیمہ تینوں پرچیوں کی تہیں کھول چکی تھی- انہوں نے پرچیوں پر نظر ڈالی تو حیران رہ گئے- تینوں بچوں نے دونوں خانوں میں اپنے اپنے انگوٹھوں کے نشانات لگا رکھے تھے، امی والے خانے میں بھی اور ابو والے خانے میں بھی- "لو بھئی- یہ تو سارے ووٹ ضائع ہوگئے- نشان تو صرف ایک خانے میں لگانا تھا"- ثاقب صاحب نے سر کھجاتے ہوۓ اپنی بیگم کی طرف دیکھا- "ووٹ ضائع ہوتے ہوں تو ہوں، ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں- ہمارے لیے تو جتنے اچھے ہمارے ابو ہیں، اتنی ہی اچھی ہماری امی بھی ہیں اور جتنی اچھی ہماری امی ہیں، اتنے ہی اچھے ہمارے ابو ہیں"- ثمینہ نے محبّت سے اپنے ابو کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوۓ کہا- "ایسے ہی خیالات میرے اور ولید کے بھی ہیں"- آفتاب نے کہا- "میں تو بہت ہی شکر کر رہی ہوں کہ ہم دونوں ہی سے بچے بہت پیار کرتے ہیں- ان کی نظروں میں ہم دونوں ہی بہت اچھے ہیں- میں تو یہ کوشش بھی کروں گی کہ آئندہ ان کے ساتھ اور بھی بہتر طریقے سے رہا کروں"- تسلیمہ خوش ہو کر بولی- "تاکہ اگلے انتخاب میں جیت جاؤ"- ثاقب صاحب نے ہنس کر کہا- ویسے ہم دونوں کو اچھا بنانے میں ان بچوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے- یہ خوب دل لگا کر پڑھتے ہیں- گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں تمہارا ہاتھ بٹاتے ہیں- اپنے اسکول اور محلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیار محبّت سے رہتے ہیں، ان سے لڑتے جھگڑتے نہیں ہیں- ان تمام باتوں کی وجہ سے ہمارا دل بھی خوش ہوتا ہے- ماں باپ خوش ہوں تو وہ نہ صرف اپنے بچوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں بلکہ ان سے ڈانت ڈپٹ بھی نہیں کرتے، کوئی سزا دینا تو دور کی بات ہے"- ولید نے کہا- "ابو ہم آپ دونوں کی اس جیت کے پر مسرت موقعہ پر یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ آئندہ بھی ہمیشہ وہ کام کریں گے جن سے آپ خوش ہوں"- "ہمیں تم لوگوں سے یہ ہی امید ہے"- تسلیمہ نے کہا اور تینوں بچوں کو پیار سے لپٹا لیا-
غرورکی سزا․․․․․․ملا کی ذہانت
پیارے بچو آپ نے ملا نصیر الدین کا نام ضرور سنا ہو گا اور اُن کے کارنامے بھی پڑھے ہونگے آئیے آپ کو ان کی ذہانت کے دو کارنامے اور پڑھائیں۔
ایک بار بادشاہ نے جنگ جیتی اس خوشی میں انہوں نے مال غنیمت تقسیم کیا۔
ملا کے حصے میں بھی ہزاروں دینار آئے پس انہوں نے تجارت کے ساتھ ساتھ سیر کاپروگرام بنایا۔ایک بار وہ دوسرے ملک گئے اور اپنا سامان سرائے میں رکھ کر شہر کی سیر کررہے تھے ایک جگہ بہت سے افراد جمع تھے وہ ان میں گھس گئے کہ دیکھیں کیا ہورہا ہے ۔
انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان جس نے اعلیٰ قسم کی پوشاک پہنی ہوئی تھی وہ ایک بڑھیا پر برس رہا تھا کہ اس نے اس کے قیمتی کپڑوں پر گھی گرادیا تھا۔
وہ بوڑھی عورت کہہ رہی تھی بیٹا میں نے جان بوجھ کر گھی تھوڑا گرایا وہ برتن اتارتے ہوئے گر گیا تھا۔
مگر نوجوان چیخ وپکار کررہا تھا کہ میرا لباس خراب ہو گیا میں نے ایک وزیر کی دعوت پر جانا تھا اب کیسے جاؤں گا۔ملا آگے بڑھے اور اس جوان سے کہا ”بھئی ضعیف عورت ہے اسے معاف کردو۔تم لباس بدل․․․․․․میں نے یہ پوشاک اصفہان سے منگوائی ہے اس کی قیمت سودینار ہے یہ بیکار ہوگئی ہے مجھے سودینار چاہئے۔
بیٹا میں غریب عورت ہوں اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوتے تو میں گھی نہ بیچ رہی ہوتی۔
اس کا فیصلہ قاضی سے کرواتے ہیں۔ملانے اچانک کہا اس نے کہا چلوقاضی کے پاس چلتے ہیں جو فیصلہ ہو گا منظور ہے مجبوراً ضعیف عورت کو بھی قاضی صاحب کے پاس جانا پڑا۔
قاضی صاحب نے ساری بات سنی اور کہا غلطی تو ضعیف عورت کی ہے اب تم کیا کہتے ہوقاضی کا اشارہ ملانصیر الدین کی طرف تھا۔
قاضی صاحب اس ضعیف عورت کی غلطی سے اس کی پوشاک خراب ہوگئی اس کا ہرجانہ میں دیتا ہوں یہ لیں 100دینار۔اس نوجوان نے جلدی سے دینار اٹھالیے۔
اس پر ملانے کہا قاضی صاحب میں نے اس پوشاک کی قیمت ادا کردی اب نوجوان پوشاک میرے حوالے کردے۔نوجوان نے کہا کیوں حوالے کروں؟
اس پر قاضی صاحب نے کہا اس شخص کی بات ٹھیک ہے۔اب یہ پوشاک اس کے حوالے کردو۔وہ نوجوان کہنے لگا میں ایسے میں گھر کیسے جاؤں گا؟ملا نے کہا یہ میرامسئلہ نہیں۔
قاضی نے کہا اگر تم یہی پوشاک خریدنا چاہتے ہودوسودینار اس (ملا )کو دو۔وہ فوراً راضی ہو گیا اس نے اپنے خادم سے سودینار لے کر ملا کے حوالے کیے۔ملا نے پچاس دینار اس عورت کو دےئے اور پچاس اپنی عباء کی جیب میں ڈالے اور کہا غرور کی یہی سزا ہے ورنہ یہ معاملہ راضی خوشی بھی حل ہو سکتا تھا۔
اس مقدمے کا شہرہ بادشاہ کے دربار میں پہنچا اُس نے فوراً ملا کو اپنے دربار میں طلب کیا۔جب ملا بادشاہ کے محل کے سامنے پہنچا اس نے دیکھا کہ ہزاروں لوگ دائرے میں کھڑے تھے جو نہی ملا آگے بڑھے ایک ضعیف بوڑھا شخص دھکالگنے سے گرگیا اور ہاتھوں،گھٹنوں کے بل اپنے لاٹھی ڈھونڈنے لگا۔
ملانے اسے سہارا دیا اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان بلند آواز میں کہہ رہا تھا بادشاہ سلامت! آپ کو دی ہوئی مہلت ختم ہوگئی ہے میری پہیلی کا جواب نہیں ملا۔
بادشاہ نے کہا سچی بات ہے ہم نے بہت کوشش کی مگر جواب تلاش نہ کرسکے تم ایسا کرو کہ اپنی پہلی دوبارہ دھراؤ اگر کسی سے جواب نہ بن پڑا ہم تمہیں انعام و اکرام سے نوازیں گے اور دربار میں جگہ دیں گے۔
اس نے مجمع کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میری پہلی بہت سادی سی ہے وہ کیا ہے جس کی صبح چار ٹانگیں ہوتی ہیں،دوپہر کو دو اور شام کو تین ٹانگیں ہوتی ہیں سبھی سوچ میں پڑگئے۔ملا کے ذہن میں جھما کا ہوا اس نے جلدی سے بوڑھے کو پکڑا اور میدان میں لے آیا۔
بادشاہ سلامت اجازت ہو اس پہلی کا جواب دوں۔ہاں ہاں کیوں نہیں!یہ بڑا امتحان ہے ۔بادشاہ سلامت اس کا جواب میں آپ بھی ہو سکتے ہیں مگر اس وقت اس کا جواب یہ بوڑھا ہے ۔کیا مطلب ہم سمجھے نہیں ۔بادشاہ نے حیرانگی سے کہا۔
وہ ایسے بادشاہ سلامت!جب انسان بچہ ہوتا ہے تو وہ چار ٹانگوں پر چلتا ہے اور جب جوان ہوتا ہے دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور بڑھاپے میں تین ٹانگوں پر چلتا ہے ۔
پہیلی میں صبح دوپہر اور شام کہا گیا۔بادشاہ سلامت نے اس نوجوان سے پوچھا اس نے ہاں میں جواب دیا۔
ہزاروں لوگوں نے تالیاں بجا کر ملا کو خراج عقیدت پیش کیا۔بادشاہ نے بہت انعام واکرام سے نوازا جب اسے پتہ چلا کہ یہ پھولنگر سے آیا تو بادشاہ نے پھولنگرکے بادشاہ کے لئے بھی ایک تلوار بھیجی جس کا دستہ یا قوت کا تھا۔یہ اب بھی پھولنگرکے بادشاہ کے پاس ہے ۔بادشاہ نے ملا کو انعام واکرام سے نوازا جس نے دوسرے ملک میں اپنے ملک کی عزت بڑھائی۔
ہاتھی ایک جہان حیرت
اردو کا ایک محاورہ ہے”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“اس کا مطلب ہر گزہاتھی کی جسامت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت بولاجاتا ہے ،جب کسی شخص کی قوت واختیار کا اظہار مقصود ہو۔
راحیلہ مغل
اردو کا ایک محاورہ ہے”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“اس کا مطلب ہر گزہاتھی کی جسامت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت بولاجاتا ہے ،جب کسی شخص کی قوت واختیار کا اظہار مقصود ہو۔لیکن اس سے قطع نظریہ ایک حقیقت ہے کہ ہاتھی کرہ ارض کا دوسرا اور خشکی کا سب سے بڑا جاندار ہے۔
بظاہر ہاتھی کو دیکھنے سے اس کی جسامت کی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بہت خونخوار جبلت کا مالک ہوگا،لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے علاوہ کچھ دیگر سردائی مقامات پر پایاجانے والا یہ جاندار زمانہ قدیم سے انسان کے کام آرہا ہے ۔
بار برداری سے لے کر پرانے زمانے میں جنگوں کے دوران استعمال تک اور بادشاہوں کی شاہی سواری سے لے کر موجودہ دور میں بچوں کے سواری کے طور پر استعمال ہونے تک ہاتھی ہماری زندگیوں میں ایک اہم کردار کے طور پر دخیل رہا ہے ۔
یہاں ہم آپ کو قوی الجثہ مگر معصوم طبیعت کے حامل جانور کی ان چند خصوصیات سے روشناس کروائیں گے،جو شائد عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں۔
فٹ پاتھ اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے گڑھے بنانا
کرہ ارض پر خشکی کے سب سے بڑے جانور ہونے کی حیثیت سے ہاتھی اپنی جسامت اور وزن کا بہترین استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔دنیا بھر میں ہاتھیوں کے تحفظ کے حوالے سے معروف ادارے دی ایلی فینٹ سنیچری(The Sanctuary Elephant) کے آؤٹ ریچ منیجر ٹوڈمنٹگمری (Todd Montgomery)کا کہنا ہے کہ”ہاتھی اپنے بھاری بھر کم پاؤں ،سونڈ اور بڑے بڑے دانتوں کے ذریعے ایسے گڑھے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،جن میں زیر زمین یابارش کا پانی جمع ہو سکے ،جو بعدازاں نہ صرف ہاتھیوں بلکہ دیگر مقامی جانوروں کی ضروریات بھی پورے کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہاتھی ایک ترتیب سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں ان کے بھاری بھرکم پاؤں جس جس زمین پر پڑتے ہیں وہاں ایک فٹ پاتھ بن جاتا ہے ،جو انہیں واپس اپنے مسکن کی طرف لوٹنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔
نمک تلاش کرنے کی صلاحیت
ہاتھی صرف جسمانی اعتبار سے ہی ایک طاقتور جانور نہیں بلکہ وہ ذہنی توانائی سے بھی مالا مال ہے۔
اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہاتھیوں میں یہاں تک صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ضرورت پڑھنے پر زمین سے نمک تک تلاش کر سکتے ہیں۔ٹوڈ مینٹگمری کہتے ہیں کہ”ہاتھیوں کو ابیدگی کیلئے نمکیات کی بہت ضرورت ہوتی ہے ،جسے وہ پودوں سے پورا کرتے ہیں تاہم اگر یہ پودے ان کی نمکیات کی ضرورت کو پورانہ کر سکیں تو وہ زمین میں ایسی جگہوں پر گڑھا کھود لیتے ہیں،جہاں نمک پایاجاتا ہے “ہاتھیوں کی جانب سے نمک کی تلاش میں زیر زمین غار بنانے کی ایک بڑی مثال کینیا کاموٴنٹ ایلگون نیشنل پارک ہے ،جہاں ہاتھیوں کا بنائی کیتم غارہے۔
ایک دن میں 12سے18گھنٹے تک کھانا
ہاتھیوں کے جسمانی وزن کی بات کی جائے تو ایک افریقی ہاتھی کا وزن 6ٹن جبکہ ایشیائی کا تقریباً 4ٹن ہوتا ہے ۔اپنے اس بھاری بھر کم جسم کو بر قرار رکھنے کے لئے ہاتھی کو بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ،اسی لئے وہ ہر قسم کے پودے گھاس ،پتے ،پھول کھالیتے ہیں۔
نیشنل جیوگرافک کے مطابق ایک ہاتھی کو روزانہ تقریباً ساڑھے3من خوراک کی ضرورت ہے ،جس کو پورا کرنے کے لئے وہ 12سے 18گھنٹے تک کھاتے رہتے ہیں۔یوں ایک سال میں ایک ہاتھی 50ٹن سے زیادہ خوراک استعمال کرتاہے۔
بہترین خاندانی نظام اور اس پر مادہ کی حکمرانی
ہاتھی ایک سماجی مخلوق ہے ،جن میں خاندانی نظام کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے اور اس خاندانی نظام میں مادہ کو امیتازی حیثیت حاصل ہے۔
ٹوڈمینٹگمری کے مطابق”ہر جھنڈ میں مختلف مزاج کے ہاتھی ہوتے ہیں ،جس کی سر براہی عمومی طور پر ان کی ماں،دادی یا پھرکسی انٹی کے پاس ہوتی ہے ۔اور اس مادہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جھنڈہر لمحہ پر ہدایات دیتی ہے۔“
ہم درد
ہاتھیوں کی ذہانت اور ان میں سماجی تعلقات کے حوالے سے پائی جانے والی صفت کے باعث ان میں ہمدردی کا عنصر بہت زیادہ پایاجاتا ہے۔
ہاتھیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ایک اور ادارے سیودی ایلیفینٹ کے چیف ایگز یکٹوآفیسر فرینک پوپ(Pope Frank)کہتے ہیں کہ”اپنے مزاج کے مطابق ہاتھی ہر کسی کے لئے بہت زیادہ ہمدری کا اظہار کرتے ہیں ۔و ہ اپنے خاندان کے ہررکن کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں،حتی کہ وہ اپنے مرنے والوں پر ماتم بھی کرتے ہیں۔
“
بہترین یاداشت
ٹوڈمینٹگمری کا کہنا ہے کہ”قدرت نے ہاتھیوں کو حیران کن ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے ،ان کی یاداشت بہت شاندار ہوتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے،جس سے وہ ہر ماحول کو جان کر اس کی اسانیوں اور خطروں کا پتہ چلالیتے ہیں ۔
ماحول کے علاوہ ہاتھی ایک بار جب کسی دوسرے ہاتھی سے مل لیتے ہیں تو زندگی بھر پھر اسے بولتے نہیں اور یہی ان کی وہ خصوصیت ہے،جس کی وجہ سے انہیں اپنے جھنڈ میں شامل ہونے والے کسی بھی نئے ہاتھی کا فوراًپتہ چل جاتاہے۔“
نوکیلے دانت بہترین اوزار
ہاتھی کو نوکیلے دانت اس کا موثر ترین اوزار ہے،جن کے ذریعے وہ بہت سارے کام سر انجام دیتے ہیں ۔
ٹوڈمینٹگمری کے مطابق”ہاتھی اپنے دانتوں کے ذریعے نہ صرف درختوں کی چھال کھینچ کر انہیں کھاتے ہیں ،جھاڑیوں کو دوڑ سکتے ہیں،زمین میں گڑھے بناتے ہیں بلکہ خطرے کی صورت میں اپنا دفاع بھی کرتے ہیں۔“
دھوپ کی شدت سے بچاؤ
بلاشبہ سورج کی تپش سے جانور بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن ہاتھیوں کے پاس اس مشکل کابہت آسان حل موجود ہے۔
اس ضمن میں ٹوڈمینٹگمر ی بتاتے ہیں کہ ”ہاتھی خود کو دھوپ کی شدت اور مضر حشرات الارض سے بچانے کے لئے دھول،گرد اور کیچڑ کا استعمال کرتا ہیں ۔سب سے پہلے وہ اپنی سونڈ میں پانی بھر کر سے اپنے جسم کے ہر حصے پر بہاتے ہیں ،پھر دھول ،گر اور کیچڑ کو خود پر گراکر سورج کی تمازل کا مقابلہ کرلیتے ہیں“ایک نئی تحقیق کے مطابق ہاتھی کے جسم پر قدرتی طور پر پائے جانے والی جھریاں پانی اور کیچڑ کو زیادہ دیر تک بر قرار رکھتی ہیں ،جس سے ہاتھیوں کو سکون ملتا ہے اور وہ سورج کی تپش سے پیدا ہونے والے مسائل سے خود کو محفوظ بنالیتے ہیں۔
شیشے میں خودکی پہچان
ہاتھی وہ جانور ہے ،جو اگر شیشے میں خود کو دیکھے تو اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ شیشے میں دکھائی دینے والاہاتھی وہ خود ہی ہے،حالانکہ بہت سارے جانور شیشہ دیکھ کر ڈر جاتے ہیں کہ وہاں کوئی اور جانور ہے ۔
حتی کہ ہم اگر انسان کی بات کریں تو 18ماہ تک کابچہ بھی شیشے میں خود کو نہیں پہچان سکتا۔اس حوالے سے فرینک پوپ کہتے ہیں کہ”ہاتھی کا شیشہ میں خود کو پہچاننا کوئی بڑی بات نہیں،کیوں کہ متعدد ٹیسٹوں میں وہ یہ ثابت کرچکا ہے ۔
البتہ ان کی یہ ذہانت دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ بھی ان کی حقیقی پہچان کرکے ان کو تحفظ فراہم کریں“
فاصلاتی ابلاغ
فرینک پوپ کا کہنا ہے کہ”ہاتھیوں میں فاصلاتی ابلاغ کی وہ صفت ہے ،جس کے ذریعے وہ اپنے منہ سے کوئی آواز نکالے بغیر اپنے ساتھیوں کو بہت دور سے خطرہ سے خبر دار کر دیتے ہیں اور وہ دیگر ہاتھی پیغام بھیجے والے کے قدموں سے اندازہ لگا لیتے ہیں ۔
اسی وجہ سے انسان کے لئے یہ ابلاغ قابل سماعت نہیں ہوتا۔آکسفورڈیونیورسٹی میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک ہاتھی کا پاؤں کے ذریعے مخصوص رویہ اس کے ساتھیوں کو صورت حال کا اندازہ کرواتا ہے ۔اس تحقیق نے سائنسدانوں کے لئے تھرتھراہٹ کے ذریعے ابلاغ کرنے کے حوالے سے نئے راستے بھی نکالے ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ ہاتھیوں میں بصارت سے زیادہ سماعت کی طاقت ہوتی ہے۔“
شکاریوں سے بچنے کی تربیت
ہاتھی اپنے ماحول کو ہی یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس ماحول کی اسانیوں اور خطروں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔
تحقیق کے مطابق ہاتھیوں کا جھنڈ ہمیشہ ایسے راستوں سے سفر کرتا ہے ،جہاں ان کا شکاریوں سے سامنا ہونے کا امکان نہ ہو،خصوصاً جب ان کے جھنڈ کا سربراہ کسی شکاری کے ہتھے چڑھ جائے۔اس سلسلے میں فرینک پوپ بتاتے ہیں کہ”ہماری تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطاق ہاتھی ایسے علاقوں میں رات کو سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ،جہاں انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں وہ اس سمت میں تیزی سے دوڑتے ہیں ،جو ان کو شکاری سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔
اس کے علاوہ پر خطر علاقہ میں ہاتھی ہمیشہ ایک سیدھی لائن بنا کر سفر کرتے ہیں اورمنزل تک پہنچے سے قبل وہ اس دوران چارے کے لئے بھی زیادہ دیر تک توقف نہیں کرتے۔یہ سب چیزیں بلاشبہ ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔“
کینسر کامقابلہ
ہاتھی کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ عمر پانے والے جانورں میں ہوتا ہے اور سائنسدان اس بات پر حیران ہیں کہ بھاری بھر کم جسم کے ساتھ لمبی عمر پانے والا جانور کینسر کو مات دے دیتا ہے ۔
تحقیق کے مطابق ہاتھیو ں میں ایک ایسا جین پایاجاتا ہے ،جو کینسرکوجسم میں پھیلنے سے روک دیتا ہے۔یوں ہاتھیوں کے اندر کینسر سے لڑنے کا ایک خود کا ر نظام موجود ہوتا ہے ،جو انسان کے بھی کام آسکتا ہے ۔
تین لاکھ کی چوری
منصور اور منیر شامی کی بہنیں بانو اور شہلا ٹاور ہاؤس گرائمر اسکول میں پڑھتی تھیں- یہ ایک پرائیویٹ اسکول تھا اور اس کو بیگم نایاب نامی ایک خاتون چلاتی تھیں- وہ اس کی مالک بھی تھیں اور پرنسپل بھی-
وہ ایک بہت اچھی اور نیک دل خاتون تھیں- ان کا یہ اسکول پلے گراؤنڈ سے میٹرک تک تھا- اس کا نظم و نسق اور پڑھائی اتنی اچھی تھی کہ لوگ دور دور سے اپنے بچوں کو اس اسکول میں پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے-
میڈم نایاب ایک سمجھدار خاتون تھیں اور یہ جانتی تھیں کہ اگر ان کے اسکول کا اسٹاف خوشحال ہوگا تو وہ اپنی ذمہ داریوں کی طرف زیادہ دھیان دے گا- اس لیے انہوں نے اسکول میں کام کرنے والی ٹیچروں اور دوسرے اسٹاف کی بہترین تنخواہیں مقرر کی تھیں جس کی وجہ سے وہ لوگ بہت خوش تھے اور دل لگا کر اپنے فرائض انجام دیتے تھے- یہ ہی وجہ تھی کہ اس اسکول میں پڑھنے والے بچے بہت زیادہ قابل اور ذمہ دار تھے-
ایک روز بانو اسکول سے گھر آئی تو وہ گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی- اس نے خاموشی سے کتابوں کا بیگ ایک طرف رکھا، یونیفارم بھی تبدیل نہیں کیا اور ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر کچھ سوچتے ہوئے باہر پودوں کو دیکھنے لگی-
منصور ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھا ہوا تھا- اس نے بانو کو اداس دیکھا تو بولا- "بانو بیگم- کیا ٹیسٹ میں مارکس کم آئے ہیں جو اتنا اداس نظر آ رہی ہو- ہر وقت کھیل کود میں لگی رہو گی تو یہ ہی ہوگا- خیر اب تم فکر مت کرو- میں آج سے روز شام کو تمہیں پڑھایا کروں گا"-
"منصور بھائی یہ بات نہیں ہے"- بانو اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی- "ہماے اسکول میں ڈاکہ پڑ گیا ہے- ڈاکو میڈم نایاب کے آفس کے سیف میں سے تین لاکھ روپے لے گئے ہیں- وہ بہت پریشان ہیں- مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے- ڈاکوؤں کے پاس پستولیں بھی تو ہوتی ہیں نا؟"-
منصور نے دلچسپی سے پوچھا- "یہ کیسے ہوا؟ میڈم نے اتنی بڑی رقم اپنے آفس کے سیف میں کیوں رکھی تھی؟"-
"یہ تو مجھے نہیں پتہ- انکل رشید کے سب انسپکٹر عارف اس کیس کی تفتیش کر رہے ہیں وہ میڈم کے ڈرائیور کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں مگر ڈرائیور انکل تو بہت شریف آدمی ہیں، وہ یہ کام نہیں کرسکتے- آپ اور منیر بھائی تو اتنے بہت سے مجرموں کو پکڑوا چکے ہیں- ان ڈاکوؤں کو بھی پکڑوادیں نا"- بانو نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا-
"تم فکر مت کرو- ہم ان مجرموں کو ضرور پکڑ وائیں گے- تم جا کر کپڑے تبدیل کرو- کھانا کھاؤ اور تھوڑی دیر کے لیے سو جاؤ- اور دیکھو- ہمیں ان چوروں ڈاکوؤں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- یہ لوگ بزدل ہوتے ہیں- جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں تو یہ شیر ہوجاتے ہیں- یہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں"-
"میں جب ان کی بڑی بڑی مونچھیں اور ہاتھ میں پستول یا کوئی دوسری گن دیکھتی ہوں تو مجھے تو منصور بھائی ان لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے"- بانو سہمے ہوئے لہجے میں بولی-
"تم ایک با ہمت لڑکی ہو-ویسے بھی آج کل کی لڑکیاں کیسے کیسے بہادری کے کام کرتی ہیں، تمہیں تو پتہ ہی ہوگا- پھر ہم ان جرائم پیشہ لوگوں سے کیوں ڈریں؟- ہماری مدد کے لیے ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جن میں پولیس بھی شامل ہے- ہم لوگ بہادر بنیں گے تو اپنی پولیس کی مدد سے ان جرائم پیشہ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں آسانی ہوگی"- منصور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا-
بانو کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی- اسے گئے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ منیر شامی آگیا- منصور اسے دیکھ کر بولا-
"چلو اوپر ہی بیٹھیں گے- تم بھی بانو اور شہلا کے اسکول میں ہونے والی ڈکیتی کی خبر لائے ہوگے"-
"یہ ڈکیتی کی نہیں چوری کی واردات ہے- کوئی چور خاموشی سے پرنسپل کے آفس میں داخل ہو کر سیف کا لاک کھول کر اس میں سے تین لاکھ روپے چوری کر کے چلا گیا"- منیر شامی نے کہا- "میڈم نایاب کا بیٹا یاسر میرا دوست ہے- ویسے تو اس کیس کی تفتیش انکل رشید کے پولیس اسٹیشن میں تعینات ان کا ایک سب انسپکٹر عارف کر رہا ہے مگر یاسر نے اس سلسلے میں ہمیں بلایا ہے اور درخواست کی ہے کہ ہم بھی اس معاملے کو دیکھیں- تم کہو تو ایک چکر لگا آئیں"- منیر شامی نے کہا-
"یاسر نے اس واقعہ کی کیا تفصیلات بتائی ہیں؟"- منصور نے پوچھا-
"تفصیلات تو کچھ نہیں بتائیں- اس سے مل کر ہی پتہ چلیں گی"- منیر شامی بولا-
"چلو چلتے ہیں- وہاں جانے میں کوئی حرج نہیں- مگر اس وقت تو اسکول بند ہوگیا ہوگا"- منصور نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا-
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا- یہ اسکول ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے- میڈم نایاب کا بنگلہ اور ملازمین کے کوارٹر بھی اس میں ہیں- انہوں نے ایک بورڈنگ ہاؤس بھی اسی میں بنا رکھا ہے- اس بورڈنگ ہاؤس میں وہ ٹیچرز لڑکیاں رہتی ہیں جن کی اس شہر میں اپنی رہائش کا کوئی انتظام نہیں ہے"- منیر شامی نے بتایا-
کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر گھر سے نکلے- ان کا ڈرائیور دلاور ان کو لے کر ٹاور ہاؤس گرائمر اسکول پہنچا- منیر شامی نے یاسر کو موبائل پر اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی- وہ اسکول کے گیٹ پر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا-
ڈرائیور دلاور کو باہر ہی انتظار کرنے کا کہہ کر وہ دونوں یاسر کے ساتھ اس کے گھر میں آئے- میڈم نایاب انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں- ان سے کھانے کا پوچھا- ان کے انکار پر انہوں نے گھر میں کام کرنے والی خادمہ سے ٹھنڈا مشروب لانے کا کہا اور پوری طرح لڑکوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئیں- منصور کو یہ دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی تھی کہ میڈم نے ہاتھوں پر باریک کالے دستانے پہن رکھے تھے- اسے داستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو میڈم مسکرا کر بولیں- "گرمی میں دستانے بہت تکلیف دیتے ہیں مگر مجھے بہت ساری چیزوں سے الرجی ہے- انھیں چھو لوں تو ہاتھوں پر خارش شروع ہوجاتی ہے- اس لیے انہیں ڈاکٹر کے مشورے پر ہر وقت پہننا پڑتا ہے"- منصور نے مسکرا کر سر ہلا دیا-
"میڈم پہلے تو یہ بتائیے کہ اتنی بڑی رقم اپنے آفس میں رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تھی"-
منیر شامی کے اس سوال پر میڈم نایاب کے چہرے پر حیرت کے آثار نمودار ہوئے- وہ تحسین آمیز انداز میں بولیں- "بھئی اتنا اہم سوال تو ابھی تک مجھ سے اس سب انسپکٹر نے بھی نہیں پوچھا تھا جو اس معاملے کی تفتیش کرنے آیا تھا- یہ رقم میں نے بینک سے اپنے اسٹاف کو تنخواہیں دینے کے لیے منگوائی تھی- یہ کل کی بات ہے- ہمارا کیشئر ڈرائیور کے ساتھ بینک گیا تھا- یہ لوگ یہاں سے ایک بجے نکلے تھے- دو بجے ہمارا اسکول بند ہوجاتا ہے- انہیں آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سب لوگوں سے کہہ دیا کہ اب وہ لوگ چھٹی کریں، ان کی تنخواہ کل ملے گی- کیشئر اور ڈرائیور چار بجے اسکول پہنچے- میں آفس میں ہی تھی اور کچھ کام دیکھ رہی تھی- ویسے بھی میں دیر تک کام کرنے کی عادی ہوں- کیشئر پیسے لے کر آیا ور بتایا کہ بینک میں بہت بھیڑ تھی اس لیے اسے دیر ہوگئی ہے- میں نے کیشئر سے پیسے لیے، انھیں گنا اور یہ سوچ کر آفس کے سیف میں رکھ دیا کہ کل نکال لوں گی- مگر آج صبح جب میں نے سیف کھولی تو وہ خالی پڑا تھا- روپے اس میں نہیں تھے"-
دونوں لڑکے خاموشی سے ان کی بتائی ہوئی تفصیل سن رہے تھے- وہ خاموش ہوئیں تو منصور نے پوچھا- "سیف کی چابیاں کہاں ہوتی ہیں؟"-
"وہ میری گاڑی کی چابیوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور میں ان کو اپنے پاس ہی رکھتی ہوں- اس آفس کی چابی بھی ان ہی چابیوں میں موجود رہتی ہے"- میڈم نایاب نے بتایا-
"گاڑی آپ ہی چلاتی ہیں؟"- منیر شامی نے پوچھا-
"زیادہ تر میں ہی چلاتی ہوں- مگر میرا ڈرائیور بھی چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے لے جاتا ہے جب کوئی دوسری گاڑی موجود نہیں ہوتی- کل وہ دونوں بینک میری ہی گاڑی میں گئے تھے- ہمارے پاس دوسری گاڑیاں بھی ہیں مگر چونکہ چھٹی کا وقت ہو رہا تھا اور ان گاڑیوں میں بچوں کو گھر چھوڑا جاتا ہے اس لیے میں نے بینک جانے کے لیے انھیں اپنی گاڑی دے دی تھی"-
"سب انسپکٹر عارف صاحب نے ڈرائیور کو کیوں گرفتار کیا ہے؟"- منیر شامی نے پوچھا-
"اسے گرفتار نہیں کیا ہے- پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لیا ہے- سب انسپکٹر کو جب یہ پتہ چلا کہ سیف اور آفس کی چابیاں گاڑی کی چابیوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور گاڑی وہ ڈرائیور بھی استعمال کرتا ہے تو وہ پوچھ گچھ کے لیے اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں- اس کی بیوی بے چاری بڑی پریشان ہے"-
"ڈرائیور کیسا آدمی ہے؟"- منیر شامی نے پوچھا-
"بہت ہی ایماندار اور نیک- مگر اس کی ایک حرکت نے اسے مشکوک بنا دیا ہے- کل شام کو وہ مجھ سے گاڑی مانگ کر لے گیا تھا- کہہ رہا تھا کہ بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے- اس کی واپسی رات کو ہوئی تھی- جب میں نے یہ بات سب انسپکٹر کو بتائی تو اس نے کہا تھا کہ یہ بات ممکن ہے کہ اس دوران اس نے خاموشی سے آفس کھول کر سیف میں سے رقم نکال لی ہو کیوں کہ چابیاں تو اس کے پاس ہی تھیں- مجھے تو یقین نہیں مگر سب انسپکٹر نہیں مان رہا تھا"-
"ہم آپ کا آفس دیکھنا چاہتے ہیں"- منصور نے کہا- "اور ہاں- آپ کی چابیاں کہاں ہیں؟"-
میڈم نایاب نے اپنے پرس میں سے چابیوں کا گچھہ نکالا اور منصور کے حوالے کردیا-
"یہ بھی بتا دیجیے کہ ان میں سے سیف کی چابی کون سی ہے اور آفس کی کونسی ہے"- منیر شامی نے کہا- انہوں نے ان دونوں چابیوں کی نشاندہی کی- منیر شامی نے ان چابیوں کو کی رنگ سے نکال لیا اور باقی چابیاں میڈم کے حوالے کردیں- میڈم کسی کام سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں-
منصور ان چابیوں کا جائزہ لے رہا تھا- اس نے چابیوں پر پر انگلیاں پھیریں تو اسے ان پر کچھ چکناہٹ سی محسوس ہوئی- اس نے انھیں سونگھا اور بولا- "اچھی خوشبو ہے"-
منیر شامی نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے دونوں چابیاں لیں اور انھیں سونگھ کر بولا- "یہ تو صابن کی خوشبو لگتی ہے- اس کا مطلب ہے کہ ان چابیوں کو کسی صابن پر رکھ کر ان کی نقل اتاری گئی ہے اور پھر اس کی مدد سے نقلی چابیاں تیار کی گئیں"-
"بالکل یہ ہی بات ہوگی"- منصور نے مسکرا کر کہا-
دونوں لڑکے یاسر کو ساتھ لے کر میڈم کے آفس پہنچے-
آفس پہنچ کر منصور اور منیر شامی نے وہاں کا سرسری نظر وں سے ایک جائزہ لیا- پھر انہوں نے بڑی باریک بینی سے ہر چیز دیکھی-
منصور نے کہا- "چور نے نقلی چابیوں کی وجہ سے اپنا کام بڑی آسانی سے انجام دے دیا تھا- یہاں ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ سیف کو کھولنے کے لیے زور آزمائی کی گئی ہو"-
اس کے بعد منیر شامی نے اپنی جیب سے ایک اسپرے پاؤڈر کا ٹن نکالا- اس کی شکل میٹل کے پرفیوم اسپرے کی سی تھی- اس نے سیف کے ہینڈل پر پاؤڈر چھڑک کر اس پر لگے انگلیوں کے نشانات ابھارے- منصور اپنے موبائل سے ان نشانات کی تصویریں بنانے لگا-
یاسر ان دونوں کی حرکتوں کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور نہ صرف وہ حیران تھا بلکہ متاثر بھی نظر آتا تھا-
"یہ تمام چیزیں تم لوگوں نے کہاں سے سیکھی ہیں؟"- آخر اس نے پوچھ ہی لیا-
"ہمیں بہت سی چیزیں رشید انکل نے سکھائی ہیں- انھیں میرے اور منیر شامی کے شوق کا پتہ ہے اس لیے وہ جرائم کے کیسز کے بارے میں ہم سے بات چیت کرتے رہتے ہیں اور سراغرسانی کے متعلق مفید باتیں بھی بتاتے رہتے ہیں- اس کے علاوہ ہم کتابیں پڑھ کر اور نیٹ سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں"-
"تمہیں ان کاموں کو کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا- جرائم کرنے والے تو بہت خوفناک قسم کے لوگ ہوتے ہیں"- یاسر نے ایک جھر جھری لیتے ہوئے کہا-
"یہ کام خطرناک سہی مگر جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ کام ہم اپنے ملک کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے کر رہے ہیں تو ہمیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا- اپنے ملک کے لیے اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو برا نہیں"- منصور نے مسکرا کر کہا-
تھوڑی دیر میں میڈم بھی وہاں پہنچ گئیں- لڑکوں کا کام ختم ہوگیا تھا- منیر شامی نے کہا- "میڈم اگر اجازت دیں تو یہ چابیاں ہم اپنے پاس رکھ لیں- یہ ہمیں مجرموں تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گی"- میڈم نے اجازت دے دی-
انہوں نے میڈم اور یاسر کو خدا حافظ کہا- پھر وہ لوگ پولیس اسٹیشن آئے- انسپکٹر رشید کہیں گیا ہوا تھا- ان کی ملاقات سب انسپکٹر عارف سے ہوگئی- انھیں دیکھ کر وہ بہت تپاک سے ملا اور ہنس کر بولا- "بہت خوب- لگتا ہے آپ بھی اس کیس کی تفتیش کر رہے ہیں- مگر برا مت مانیے گا- اس دفعہ آپ کی کامیابی کی امید کم ہی نظر آتی ہے- میں اس کیس کے مجرم تک پہنچ گیا ہوں"-
"آپ کو کامیابی مبارک ہو"- منیر شامی نے ہنس کر کہا- "کیا آپ اجازت دیں گے کہ ہم میڈم کے ڈرائیور سے مل سکیں"-
سب انسپکٹر عارف کے چہرے پر عجیب سے تاثرات نظر آئے- اسے سو فیصد یقین تھا کہ ڈرائیور ہی اس چوری میں ملوث ہے- چابیاں اسی کی تحویل میں تھیں- اسی نے رات کو میڈم کے کمرے میں جا کر یہ چوری کی ہوگی- وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کیس کا کریڈٹ ان لڑکوں کے سر جائے- وہ سوچ میں پڑ گیا کہ انھیں حوالات میں بند ڈرائیور سے ملوائے یا نہیں- پھر اسے خیال آیا کہ اگر اس نے انکار کیا تو لڑکے اس کی شکایت انسپکٹر رشید سے کریں گے- اس لیے اس نے بادل نخواستہ انھیں اس سے ملوانے کے لیے ایک سپاہی کے ساتھ بھیج دیا-
ڈرائیور حوالات میں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا- انھیں دیکھا تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا- منصور نے کہا- "بابا آپ بالکل پریشان نہ ہوں- ہمیں آپ سے کچھ سوالات کرنا ہیں"- ڈرائیور خاموشی سے اس کی شکل دیکھے جا رہا تھا- منصور نے پھر کہا- "ہمیں یہ بات معلوم کرنا ہے کہ کل آپ کو بینک میں دیر کیوں ہوئی تھی؟"-
"ہمیں بینک میں تو دیر نہیں ہوئی تھی- چیک دے کر اظہار الدین کو فوراً ہی پیسے مل گئے تھے"- اس کا سوال سن کر ڈرائیور نے بتایا- اظہار الدین اس کیشئر کا نام تھا-
"تو پھر تم لوگ دیر سے اسکول کیوں پہنچے تھے؟"- منیر شامی نے حیرت سے کہا-
"اظہار الدین کی وجہ سے- وہ کہہ رہا تھا کہ پھر گاڑی ملے نہ ملے- مجھے کچھ ضروری کام بھی ہیں ان کو نمٹا لوں- اس نے ایک بازار میں گاڑی رکوا کر مجھ سے کھانا بھی منگوایا تھا- مجھے بوتل بھی پلائی تھی- پھر وہاں سے وہ مجھے لے کر ٹرنک بازار آیا- اسے شاید کوئی صندوق خریدنا تھا مگر اس نے خریدا نہیں، کیوں نہیں خریدا، مجھے نہیں پتہ کیوں کہ وہ مجھے گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کو کہہ گیا تھا- وہاں اس نے کافی دیر لگا دی تھی- اسکول پہنچ کر اس نے مجھے پانچ سو روپے بھی دیے تھے اور کہا تھا کہ میڈم پوچھیں تو یہ کہہ دینا کہ بینک میں دیر ہوگئی تھی- لیکن میڈم نے مجھ سے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا- اگر پوچھتیں تو میں تو انھیں صاف صاف بتا دیتا کہ ہمیں بینک میں دیر نہیں ہوئی تھی، اظہار الدین ہی مجھے اپنے ساتھ ساتھ لیے پھر رہا تھا"-
منصور اور منیر شامی خاموشی سے اس کو دیکھنے لگے- تھوڑی دیر بعد وہ لوگ پولیس اسٹیشن سے باہر آگئے-
وہاں سے نکل کر منصور نے ایک جنرل اسٹور سے ایک صابن لیا- اس نے اس صابن کا ریپر اتارا اور سیف کی چابی کو اس پر رکھ کر اس کو پوری قوّت سے دبایا- صابن کی ٹکیہ نرم و نازک تھی، چابی اس میں دھنستی چلی گئی- جب چابی صابن کی سطح کے برابر اس کے اندر چلی گئی تو منصور نے آہستگی سے اسے ناخن کی مدد سے باہر نکال لیا- اس کی شبہیہ صابن کی سطح پر ظاہر ہو گئی تھی- اس نے دلاور سے کہا- "اب ہمیں ٹرنک بازار چلنا ہے"-
ٹرنک بازار زیادہ دور نہیں تھا- وہ ایک بہت بڑے علاقے پر محیط تھا- یہاں پر ٹین کی چادروں سے چھوٹے بڑے صندوق بنائے جاتے تھے- اس وقت بھی کاریگر اپنے کاموں میں مصروف تھے اور ان کی ٹھونکا پیٹی سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی- بازار کے اندر جانے کے لیے ایک بہت بڑے دروازے سے گزرنا پڑتا تھا- اس دروازے کے دائیں اور بائیں جانب انھیں دو چابیاں بنانے والے نظر آئے-
منصور دائیں جانب والے چابی میکر کے پاس آیا- جیب سے صابن نکال کر اسے دیا اور بولا- "بھائی صاحب- ہمیں اس طرح کی چابی بنا دو"-
اس چابی بنانے والے نے صابن ہاتھ میں لیا اور پھر اسے گھورتے ہوۓ بے رخی سے بولا- "چلو چلو- میں یہ کام نہیں کرتا ہوں- تم شکل سے کسی اچھے گھر کے لگتے ہو، ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دیتا"-
"پولیس کے حوالے کیوں کردیتے- ہم نے کیا جرم کیا ہے"- منصور نے مسکرا کر پوچھا-
"کچھ بھی ہو- اس طریقے سے چابیاں یہاں نہیں بنتیں- ایسے کام کرنے والا وہ بیٹھا ہے"- اس نے دوسرے چابی والے کی طرف اشارہ کر کے کہا اور اپنی گود میں رکھے ہوئے دوپہر کے اخبار کو اٹھا کر چہرے کے سامنے کر لیا-
وہ لوگ اس دوسرے چابی بنانے والے کے پاس آئے- اس کی دوکان پر ایک بورڈ آویزاں تھا جس پر لکھا تھا "کی اینڈ لاک میکر"- منصور نے اسے صابن دکھایا تو وہ بولا- "ارے بھائی کیا یہ کسی خزانے کی چابی ہے- کل بھی مجھ سے ایک آدمی دو چابیاں بنوا کر لے گیا تھا- شکل سے تو وہ پڑھا لکھا لگ رہا تھا مگر تھا بھلکڑ- جاتے ہوئے اپنی نظر کی عینک یہیں چھوڑ گیا تھا اور بعد میں واپس بھی نہیں آیا "-
یہ سن کر منصور اور منیر شامی کے دل زور سے دھڑکے- منصور نے کہا- "تو پھر اس کی بھی ایک نقل بنا دیں"-
"ایک چابی بنانے کے پانچ ہزار روپے لگتے ہیں- دو گے؟"- چابی بنانے والے نے انھیں اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا- منصور نے صابن اس کے ہاتھ سے لے لیا اور مایوسی سے بولا- "اتنے پیسے تو نہیں ہیں ہمارے پاس"-
ان کا کام ہوگیا تھا- وہ واپس گھر آگئے-
رات کے کھانے کے بعد منیر شامی بھی منصور کے پاس آگیا- ان کی ملاقات انسپکٹر رشید سے ہوئی- وہ مسکرا کر بولا- "پتہ چلا ہے کہ تم لوگ بانو کے اسکول میں ہونے والی تین لاکھ کی چوری والے کیس پر کام کر رہے ہو- یہ کیس میرے ہی پاس ہے اور اسے میں نے عارف کے سپرد کردیا ہے- وہ پر امید ہے کہ مجرم جلد ہی اقبال جرم کر لے گا"-
"میڈم نایاب کا بیٹا یاسر منیر شامی کا دوست ہے- اس نے اسے فون کر کے اس معاملے کو دیکھنے کا کہا تھا"-
"میں تو کسی دوسرے کیس میں مصروف ہوں"- انسپکٹر رشید نے بتایا- " تم لوگوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟"-
"زیادہ تو کچھ نہیں مگر اندازہ ہے کہ ہم لوگوں نے اس چوری کے مجرم کا پتہ چلا لیا ہے"- منصور مسکرا کر بولا- "ہمیں آپ سے بھی مدد درکار ہے- ٹرنک بازار میں ایک چابی بنانے والا بیٹھتا ہے- اس کی دکان کا نام "کی اینڈ لاک میکر" ہے- صبح اس کو میڈم کے آفس میں بلانا ہے- دوسرا کام یہ ہے کہ ہمارے پاس چند انگلیوں کے نشانات ہیں- شناختی کارڈ کے محکمے سے پتہ کروانا ہے کہ وہ کس شخص کے ہیں"-
انسپکٹر رشید نے دونوں کام کروانے کی حامی بھر لی- منیر شامی نے کمپیوٹر سے پرنٹ کیا ہوا ایک کاغذ اس کے حوالے کر دیا جس پر ان انگلیوں کے نشانات تھے جو انہوں نے میڈم نایاب کے سیف کے ہنڈل پر سے حاصل کیے تھے-
اگلے روز کا ذکر ہے- منصور اور منیر شامی کے اسکول کے لڑکے کسی جگہ پکنک منانے جا رہے تھے- انہوں نے سر سے کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ وہ لوگ نہیں جاسکتے انھیں ایک ضروری کام ہے- وہ وہاں سے سیدھے ٹاور ہاؤس گرائمر اسکول پہنچے- اسکول میں انسپکٹر رشید اپنے اسسٹنٹ سب انسپکٹر عارف کے ساتھ پہلے ہی سے موجود تھا- باہر چند پولیس والے بھی موجود تھے- پولیس کی موجودگی نے اسکول کے ملازمین اور بچوں پر اچھا اثر ڈالا تھا- ملازمین ادب اور خوش اخلاقی کی تصویر بنے پھر رہے تھے اور بچے دوسرے دنوں کی طرح کلاسوں میں شور نہیں مچا رہے تھے- ان کا دھیان پڑھائی سے زیادہ پولیس کے سپاہیوں کی طرف لگا ہوا تھا-
یہ دونوں بھی سیدھے میڈم نایاب کے آفس میں پہنچے- منیر شامی نے اندر پہنچتے ہی کہا- "میڈم اپنے کیشئر کو بھی یہیں بلوا لیجیے"-
میڈم نایاب نے اسکول کی بوا کو کہا کہ وہ اظہار الدین کو بلا لائے- تھوڑی دیر میں اظہار الدین وہاں پہنچ گیا اور کمرے میں ایک طرف کھڑا ہوگیا- وہ چالیس بیالیس سال کا ایک تنومند شخص تھا- اس کی شکل سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی قسم کی گبھراہٹ محسوس کر رہا ہے-
"کیشئر کو کیوں بلایا ہے؟"- سب انسپکٹر عارف نے منصور سے سوال کیا-
" گرفتاری کے لیے"- منصور نے بڑے مزے سے کہا-
یہ سننا تھا کہ اظہار الدین چراغ پا ہو گیا- نہایت غصے سے چلایا- "میری گرفتاری کیوں؟ کیا کیا ہے میں نے؟"-
منصور نے فوراً جیب سے چابی کے نشان والا صابن نکال کر اس کو دکھایا- اس کے چہرے پر شدید حیرت کے آثار نظر آئے- اسی لمحے دروازہ کھلا اور دو سپاہی اس جعلساز چابی بنانے والے کو لے کر اندر داخل ہوئے- اظہار الدین کو دیکھ کر وہ چلایا- "میں بے قصور ہوں- یہ ہی وہ شخص ہے جس نے مجھے زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر دو چابیوں کی نقل بنوائی تھیں"-
"اس کے علاوہ اظہار الدین صاحب- آپ کے انگلیوں کے نشانات سیف کے ہنڈل پر سے بھی مل گئے ہیں- اس پر صرف آپ کی ہی انگلیوں کے نشانات ملے تھے- میڈم تو ہر وقت دستانے پہنے رکھتی ہیں اس لیے ہنڈل پر ان کی انگلیوں کے نشانات نہیں تھے- پھر آپ کی عینک جو آپ اس چابی میکر کی دکان پر چھوڑ آئے تھے وہ بھی پولیس کے قبضے میں ہے"-
یہ سننا تھا کہ اظہار الدین کے اوسان خطا ہوگئے- اس کی ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہیں رہی- وہ زمین پر بیٹھتا گیا اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا- سب انسپکٹر عارف نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنا دی-
انسپکٹر رشید نے اٹھ کر دونوں لڑکوں کا شانہ تھپتھپایا اور بولا- "ویری گڈ- تم نے کمال کر دکھایا ہے- مگر اتنی جلدی تم مجرم تک پہنچے کیسے؟"-
سب انسپکٹر عارف اس صورتحال سے بوکھلا گیا تھا- وہ تو یہ ہی سمجھ رہا تھا کہ مجرم میڈم کا ڈرائیور ہے- منصور نے کہا- "ہم نے آفس اور تجوریوں کی چابیوں کا جائزہ لیا تو ان پر کچھ چکناہٹ سی محسوس ہوئی، انھیں سونگھ کر دیکھا تو ان میں سے صابن کی خوشبو آرہی تھی لہٰذا ہم سمجھ گئے ان چابیوں کو کسی صابن پر رکھ کر ان کا فرمہ بنایا گیا اور پھر اس کی مدد سے نقلی چابیاں- جب ہم نے میڈم نایاب کے ڈرائیور سے سوال جواب کیے تو بڑی آسانی سے پتہ چل گیا کہ اس سارے معاملے کے پیچھے اظہار الدین کیشئر کا ہاتھ ہے- شائد وہ بہت دنوں سے اس چوری کی منصوبہ بندی کر رہا تھا- کل جب میڈم نے اس سے اسٹاف کی تنخواہ نکلوائی تو وہ جان بوجھ کر رقم لے کر دیر سے آیا- تاکہ سارا اسٹاف چھٹی کر جائے اور میڈم اس رقم کو آفس میں موجود سیف میں رکھنے پر مجبور ہوجائیں- بینک سے واپسی پر اس نے بہانہ بنا کر ڈرائیور کو کھانا لینے بھیجا- اس کے جانے کے بعد اس نے گاڑی کے ڈیش بورڈ سے لٹکی چابیاں نکال کر ان کی شبہہ صابن پر اتاریں- پھر وہ ٹرنک بازار جا کر ان کی نقل بنوا کر لایا- سارے کام اس کی توقع کے مطابق ہو رہے تھے- وہ رات کو چھپتا چھپاتا آیا، نقلی چابی سے آفس کھولا اور پھر دوسری چابی سے تجوری اور یوں ساری رقم لے کر چلتا بنا"-
وہاں پر موجود سب لوگ منصور اور منیر شامی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے- میڈم نایاب تو بہت ہی خوش تھیں- تھوڑی سی کوششوں کے بعد سپاہی کیشئر اظہار الدین کو ہوش میں لے آئے- وہ کسی سے نظریں نہیں ملا رہا تھا- اس نے وہ جگہ بھی بتا دی جہاں پر اس نے چرائی ہوئی رقم چھپا کر رکھی تھی-
تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر پورے اسکول میں پھیل گئی- ساری ٹیچرز منصور اور منیر شامی کو دیکھنے کے لیے آگئی تھیں- اپنی مس کے ساتھ بانو اور شہلا بھی وہاں موجود تھیں- - دونوں اپنے اپنے بھائیوں کے پاس آ کر کھڑی ہوگئیں- اپنے بھائیوں کے پاس کھڑے ہو کر انھیں ایک فخر کا احساس ہو رہا تھا-
یاسر دور کھڑا سوچ رہا تھا کہ اگر سب بہنوں کے بھائی بھی اسی طرح کے اور اس طرح کے دوسرے اچھے اچھے کام کریں تو نہ صرف ان کی بہنیں بلکہ ان کے ماں باپ بھی ان پر فخر کریں اور خوشی سے پھولے نہ سمائیں-
یاسر نے فون کر کے میڈیا اور اخبار والوں کو بھی بلا لیا تھا اور انھیں تین لاکھ روپوں کی چوری کے متعلق بتایا- یہ تفصیل سن کر انہوں نے نے منصور اور منیر شامی کو گھیر لیا اور ان سے مختلف سوالات کرنے لگے- دونوں نے ان سب کو کیس کی تفصیلات بتائیں- سب لوگ ان کے اس کارنامے پر حیران بھی تھے اور خوش بھی- اگلے روز کے اخبارات ایک مرتبہ پھر ان کی ذہانت کے اس کارنامے سے بھرے ہوئے تھے۔
لائبریری
یہ زیادہ پرانی بات نہیں،اس زمانے میں بیشتر گھرانوں میں قصے،کہانیاں اور نظمیں سنائی جاتیں تھیں اور پہیلیاں بوجھنے کا رواج تھا۔مذہبی اور تاریخی قصے،بادشاہوں ،جنوں اور پریوں کی کہانیاں عام تھیں،جن سے بچوں میں دین اور ادب کا ذوق وشوق پیدا ہو جاتا تھا۔
آج ہم مہنگا اور مضرِ صحت کھانا خرید لیتے ہیں ،نمودونمایش میں رقم لٹا دیتے ہیں ،لیکن ہم اپنے گھر میں ایک چھوٹا ساکتب خانہ(لائبریری )نہیں قائم کرتے۔ایک وقت وہ تھا،جب اکثر گھروں میں بھی تھوڑی بہت کتابیں ضرور ہوتی تھیں۔
صرف حیدر آباد دکن میں چار ہزار کتب خانے تھے۔ڈاکٹر سلیم اختر کہتے ہیں:”گھر کے لوگ پانچ ہزار کا کھانا شوق سے کھالیں گے،مگرپانچ سو کی کتاب نہیں خریدیں گے۔
“
محترم رضا علی عابدی لکھتے ہیں:”ایک زمانے میں گھر گھر کتب خانے ہوا کرتے تھے ۔
گھر کے ایک طاق میں کچھ کتابیں ضرور موجود ہوا کرتی تھیں۔خوش نویس راتوں کو چراغ کی روشنی میں کتابیں نقل کرکرکے بیچا کرتے تھے۔“
خلافت اُمیہ ،عباسیہ اور اسپین(اندلس)میں کوئی ایسا گھر اور کوئی ایسی مسجد نہیں تھی،جہاں کتب خانہ نہ ہو،یہاں تک کہ جس شخص کے گھر میں کتب خانہ نہ ہو ،لوگ ایسے گھرانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔
نوابین اور بادشاہ بھی اپنے ذاتی کتب خانے رکھتے تھے۔باپ اپنی بیٹی کا رشتہ ،دامادکے گھر کی لائبریری دیکھنے کے بعد کیا کرتا تھا،تاکہ پتاچلے کہ میرا ہونے والا داماد کس ذہن،سوچ وفکر کا مالک ہے اور گھر کاماحول کتنا علمی وروحانی ہے ،مگر اب ہم پانچ ہزار کا جوتا خریدکراسے سستاسمجھتے ہیں،لیکن تین سوروپے کی کتاب کو ہم مہنگا کہتے ہیں ۔
یعنی قوم کو جوتے زیاد ہ پسند ہیں۔
اپنے خاندان اور آنے والی نسلوں کو پڑھا لکھا،تعلیم یافتہ،انسان بننا اور باشعور دیکھنا چاہیں تو گھر میں لائبریری ضرور قائم کریں ۔اس سے گھر کا ماحول علمی بن جاتا ہے ۔ہم جس ماحول میں آنکھ کھولتے وہاں کا اثر ہماری شخصیت کی تعمیر میں نمایاں ہوتاہے۔
ہم جس طرح گھر کا سودا خریدنے بازار جاتے ہیں،اسی طرح کتابوں کی دکانوں پر بھی جانا چاہیے۔گھر کے تمام افراد کے لیے مفید کتابوں کی خریداری کرنی چاہیے۔
گھرمیں لائبریری کی ابتداکس طرح کریں؟
اپنے گھر کے کسی گوشے میں دس بارہ کتابوں سے لائبریری کی ابتدا کریں اور اس لائبریری کو ایک خوب صورت سانام دے رہیں۔
ہر مہینے اپنے ذوق کے مطابق دو تین معلوماتی کتابوں کا اضافہ کرتے رہیں ۔اس طرح آپ کے پاس ہر موضوع پر کتاب موجود ہوگی۔
ہر مہینے کتابوں کی خریداری کے لیے کچھ رقم مختص کیا کریں۔
کتب خانے کا ماحول پر سکون ہوتو بہت ہے۔
گھر میں قرآن کی تفاسیر کے ساتھ دیگر اسلامی ،تاریخی ،ادبی اور سائنسی کتابیں ہوں۔بچوں کی تربیت کے لیے اسلامی واصلاحی کہانیاں ،واقعات ،سائنسی ،معلوماتی کتابیں بھی ہوں۔
ہوسکے تو گھر کی لائبریری کے لیے روزانہ ایک اخبار لیا کریں۔
اخبار میں کالم نگاروں کے خیالات سے آگاہ ہوں اور دیگر تحریرں بھی پڑھیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں لائبریریوں کا استعمال اس قدرعام ہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے بھی پبلک لائبریریاں موجود ہیں ۔اگر ہم مطالعے کے عادی ہوجائیں تو ہم دوسروں سے بہت اعتماد کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں اور دلائل اور حوالے بھی دے سکتے ہیں ۔اس طرح دوسروں کو اپنی بات آسانی سے سمجھا سکتے ہیں۔
لالچی سوداگر
کسی زمانے میں ایک سوداگر تھا،جو بہت لالچی تھا۔ایک دفعہ وہ پچاس اونٹوں پر سامان لاد کر تجارت کے لیے گیا۔راستے میں کچھ دیر سستانے بیٹھ گیا۔وہاں سے ایک درویش کا گزررہا تھا۔اس نے سوداگر کو دیکھا تو ان کے برابر میں بیٹھ کرباتیں کرنے لگا۔
وہ دونوں دوست بن گئے۔سوداگر نے پوچھا:”تم کہاں جارہے ہو؟“
درویش نے جواب دیا:”مجھے ایک ایسی سرنگ کا پتاچلا ہے جس میں سونا بند ہے ،میں وہی سوناڈھونڈنے جارہا ہوں۔اب میں چلتا ہوں۔“
سوداگر نے کہا:”رکو،میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔
“
درویش نے کہا:”ٹھیک ہے۔“
سوداگر نے کہا:”اگر اس سرنگ میں سے سونا نکلا تو ہم دونوں آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔“
درویش نے کہا:”ٹھیک ہے۔
“
جب سرنگ کے قریب پہنچے تو درویش نے کوئی منتر پڑھا۔وہ سرنگ فوراً کھل گئی اور اس سرنگ کے کھلتے ہی سوداگرحیران رہ گیا۔
اس میں بہت سارا سونا تھا۔دونوں نے آدھا آدھا سونا بانٹ لیا اور دونوں اپنی اپنی راہ پر چل دیے۔سودا گر کچھ آگے گیا تو اس نے سوچا کیوں نہ میں درویش سے وہ آدھا سونا بھی لے لوں۔یہ سوچ کر سودا گر بھاگ کر درویش کے پاس گیا اور کہا:”تم تو درویش آدمی ہوتم پھر کہیں سے سونا ڈھونڈ لوگے تو تم ایک کام کرو کہ اس میں سے آدھا سونا مجھے دے دو۔
“
اسی طرح بہلا پھسلا کر اس نے درویش سے سارا سونا اپنے قبضے میں لے لیا۔سودا گر اور درویش دونوں الگ الگ سمتوں میں روانہ ہو گئے۔سوداگر نے سوچا کہ اس کے پاس ایک چھوٹا ساڈبا تھا۔اس میں کیا تھا۔سودا گر پھر دوڑ کر درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا:”تمھارے پاس جوڈبا ہے ،اس میں کیا ہے ؟“
درویش نے جواب دیا:”اس میں جادو کا کاجل ہے ۔
ایمان دار اور سخی آدمی لگائے گا تو اسے چھپا ہوا سونا نظر آئے گا،لیکن اگر بے ایمان اور لالچی آدمی لگائے گا تو اندھا ہو جائے گا۔“
سودا گر نے کہا:”یہ میری آنکھوں میں لگا دو،کیوں کہ میں تو بہت دیانت دار اور معقول آدمی ہوں۔
“
درویش نے پہلے تو اسے سمجھایا،لیکن سودا گر ضد کرتا رہا۔سودا گر کا خیال تھا کہ درویش اس سے بہانا کررہا ہے ۔آخر درویش نے سودا گر کی آنکھوں میں کاجل لگا دیا۔کاجل لگنے کے بعد سودا گرنے آنکھیں کھولی تو اسے کچھ نظر نہ آیا۔
اس نے درویش سے کہا:”تم نے مجھے اندھا کردیاہے ،تاکہ سارا سونا خود لے جاؤ۔“
درویش نے کہا:”میں نے تمھیں پہلے ہی خبر دار کردیا تھا،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ تم نے بدنیتی سے میرے حصے کا سونا بھی ہتھیالیا ہے اور اس کا جل سے تمھیں نقصان پہنچے گا۔
“
اب سودا گر ،درویش کے آگے گھگیانے لگا:”اے درویش !میری خطامعاف کر،میں آیندہ ایمان داری سے زندگی بسر کروں گا۔ضرور تیرے پاس اس کا جل کا تریاق بھی ہوگا۔خدا کے واسطے میری بینائی بحال کر،کچھ کر۔“
درویش بولا:”ایک شرط پر تیری بینائی واپس آسکتی ہے۔
“
”جلدی بتا،مجھے تیری ہر شر ط منظور ہے۔“
درویش نے کہا :”جتنا سونا تمھارے پاس ہے ،یہ سب غریبوں میں تقسیم کرنا ہو گا اور آیندہ بھی مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنی ہوگی۔“
سودا گرنے درویش کے پاؤں پکڑ لیے:”میں وعدہ کرتا ہوں،اپنی تمام دولت سے ضرورت مندوں کو آرام پہنچاؤں گا۔
“
درویش نے جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی۔اس میں سرمہ تھا۔سودا گر کی آنکھوں پر سرمہ لگایا تو تھوڑی دیر بعد اسے دھند لاسانظر آنے لگا۔اس نے درویش کا شکریہ ادا کیا۔پھر وہ دونوں ایک ساتھ ایک ہی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں انھیں غریب لوگوں کی بستیاں ملیں۔
سوداگر نے تمام سونا ان بستیوں میں تقسیم کردیا۔تمام سونا تقسیم ہو گیا تو سودا گر کی بینائی مکمل طور پر بحال ہو گئی اور اسے بالکل صاف نظر آنے لگا۔
درویش نے کہا:”تم اپنی سخاوت کا عمل جاری رکھنا،ورنہ پھرسے اندھے ہو جاؤ گے۔“
سودا گر نے وعدہ کیا اور درویش اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔
0 Response to "دس کہانیاں"
Post a Comment