
بیس کہانیاں
بڑی سوچ
گرمیوں کی ایک صبح حرا بیدار ہوئی۔ فجرکی نماز ادا کی ،دعا مانگی اور پھر سو گئی۔ تین مہینے بعد اسکے میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے۔مگر حرا نے کبھی اس پر سنجیدگی سے غور ہی نہ کرنا چاہا۔ امی سے اکثر اس بات پر ڈانٹ بھی پڑتی مگر حراکے سر پر جوں تک نہ رینگتی تھی۔
بڑے بڑے خواب دیکھنا حرا کا اہم مشغلہ تھا ۔ اپنی امی کو تسلی دینے کے لیے حرا نے کہاامی جان آپ فکر نہ کریں میں امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کروں گی اور بورڈ میں ٹاپ (Top) کر کے آپ کا اور ابو کا سر فخر سے بلند کروں گی۔
ٓامی: حرا ٹاپ (Top) کرنے کے لیے پڑھنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔
حرا کے ابو نے حرا کو بُلا کر کہا:
ابو: بیٹا اس دنیا میں انسان کی عزت تعلیم کی بدولت ہی ہوتی ہے۔
تم دل لگا کر پڑھو تاکہ مجھے تم پر فخر محسوس ہو سکے۔
حرا: ابو ! فکر نہ کریں میں آپ کا سر فخر سے بلند کروں گی۔ ابو کے اس جملے نے حرا کے دل میں گھر کر لیا اور حرا نے تن ، من ، دھن ی بازی لگا کر پڑھنا شروع کیا۔
پھر دن کیا اور رات کیا۔ آخر چھ ماہ بعد حرا کے امتحانات کا نتیجہ اخذ ہونا تھا۔ امی جان نے شکرانے کے طور پرخرا کے صرف پاس ہو جانے پر ہی دیگ بانٹے کا ارادہ کر دکھا تھا۔ سب لوگ حرا کو (Underestimate) کرتے تھے آخر کار وہ دن آگیا جب اسکا نتیجہ نکلنا تھا۔
گھڑی کی سوئی ی ٹِک ٹِک کے ساتھ ساتھ سب کے دل دھک دھک کر رہے تھے مگر حرا اِدھر اُدھر حشاش بشاش پھر رہی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ آخر دس بج کر دس منٹ پر پتہ چلا کہ حرا نے نہ صرف اپنے سکول میں مگر پورے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے۔
ایک منٹ کے لیے تو سکوت سا چھا گیا تھا۔ کسی کو یقین نہ آرہا تھا کہ حرا اس قدر قابل اور ذہین نکلے گی۔ پورے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ لوگوں کے مبارک باد دینے کے لیے فون آنے لگے۔ آخر میٹرک کے نتیجے کے بعد حرا کوا چھے کالج میں داخلہ ملا دو سال بعد حرا کے ابو نے اسے آگے پڑھنے کے لیے باہر بھیجا۔
چھ سال بعد حرا P.H.Dکر کے واپس لوٹی۔ حرا کے ابو نے حرا کو اپنے پاس بُلا کر کہا:
”بیٹی مجھے تم پر فخر ہے اور اللہ تم جیسی بیٹی ہر ایک کو دے۔“ ابو کے یہ الفاظ سُن کر حرا کی آنکھوں میں آنسو آگے۔ حرا کی زندگی کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ اپنے والدین کے لیے باعث فخر بنے اور یہ مقصد پورا ہو گیا۔
حرا کی زبان سے بے اختیار یہ شعر نکلا:
جب ہمت جوان ہو اور جذبے جنون بن جائیں
تو منزلیں خود آگے بڑھ کر سلام کرتی ہیں
پھر حرا کی شادی بہت امیر خاندان میں ہوئی۔ اسے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بار بار جانے کا موقع ملا۔
حرا اپنے امی ابو کو ساتھ لے کر حج کرنے بھی گئی۔ حرا نے اپنی تعلیم کے ذریعے دوسروں کو بھی فیض یاب کیا۔ اس نے غریب طلبا کے لیے مفت سکول بنا رکھا تھا تاکہ وہ بھی تعلیم کے بلبوتے پر وہی مقام پاسکیں جیسا کہ حرا نے پایا۔
اپنے منہ میاں مِٹھو بننا
”سنو دوستو!میں تم سب سے اچھی کرکٹ کھیلتا ہوں لہذا ٹیم کا کپتان بھی مجھے ہی بنایا جائے۔“ عامر ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا اپنے دوستو کو مستقل اس بات کے لئے قائل کر رہا تھا کہ وہ سب سے اچھی کرکٹ کھیلتا ہے۔
لہذا کپتان بھی اسے ہی بنایا جائے لیکن اس کے دوست عامر کی بات ماننے پر تیار نہیں تھے مگرعامر ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ”میں اچھی کرکٹ کھیلتا ہوں۔”بھئی جب عامر اتنی ضد کر رہا ہے کہ وہ اچھی کرکٹ کھیلتا ہے تو اسے کپتان بنا کر دیکھ لیتے ہیں۔
“ عامر کے ایک دوست نے بقیہ دوستوں کو رائے دیتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے․․․․ٹھیک ہے․․․․عامر کو کپتان بنادیتے ہیں۔“سب دوستوں نے ایک ساتھ شور مچاتے ہوئے کہا اور یوں عامر اپنی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن گیا۔
اگلے دن ہی دوسرے محلے کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ عامر کی ٹیم کا میچ طے ہوگیا۔
عامر ٹاس کرنے گیا تو ہار گیالہذا دوسری ٹیم نے پہلے بیٹنگ کی عامر کے سوا اس کے تمام دوستوں نے اچھی بالنگ کی جبکہ عامر نے چھ اورز میں باون رنز دئے اور وکٹ بھی کوئی نہیں لے سکا۔
عامر کی ٹیم جب بیٹنگ کرنے آئی تو عامر نے اوپنر کے طور پر کھیلتے ہوئے صرف دو رنز بنا ئے اور بولڈ ہو گیا۔
اس طرح عامر کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔عامر منہ لٹکائے اپنی ٹیم کے ساتھ واپس گھر جارہا تھا کہ اس نے اپنے کسی دوست کی آواز سنی جو دوسرے سے کہہ رہاتھا”عامر اپنے کھیل کی کس قدر تعریف کررہا تھا اور جب نتیجہ آیا تو صفر“۔دوسرے دوست نے کہا”واقعی بے چارہ اپنے منہ میاں مٹھُو بنا پھرتا تھا“
اناج کے دانے
اماں چڑیا نے اپنے پنکھوں میں اپنی ساری طاقت بھری،لیکن اس کی اڑان اونچی نہ ہوسکی۔تیز ہوا کا جھونکا تھا اورچوفان کی شورش اس قدر کہ انسان بھر گھروں کے اندر مقید تھے۔اماں چڑیا کا طوفانی آفت میں سانس لینا محال ہوا تھا۔
منہ سے سانس لے بھی لیتی،لیکن منہ میں بچوں کے لیے دانہ دنکا سمیٹ رکھا تھا۔اگر منہ کھولتی تو یہ دانے ہوالے اڑتی،پھر ہاتھ میں کیا رہ جاتا۔اماں چڑیا نے نظر اٹھا کر دیکھا،چمنستان میں صرف تین درخت دور اُس کا اپنا گھونسلہ تھا،جس میں چار چھوٹے چھوٹے بچے اُس کے منتظر تھے۔
شام گہری ہوتی جارہی تھی،اور ہوا کا زور ٹوٹنے میں نہیں آرہا تھا۔وہ چاہ رہی تھی کہ وہ یہیں کہیں رُک جائے،لیکن یہ طوفان تو پچھلے تین دنوں سے مسلسل تھا اور اب بچے بھوک سے بلبلا اٹھے تھے تو اماں چڑیا کو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گھونسلے سے باہر نکلنا ہی پڑا۔
اماں چڑیاں کو یاد آیا راستے میں کئی جگہ اُسے پانی بھی ملا تو وہ حلق میں ڈال نہ سکی۔کیونکہ بچوں کی بھوک کا خیال حاوی تھا۔اب دانہ دنکا منہ میں تھا،لیکن وہ پیٹ نہ بھر سکتی تھی۔رات کے اندھیرے میں بجلی ایک درخت پر آن گری۔درخت کی سب سے اونچی شاخ ٹوٹی اور اماں چڑیاں اُس بوجھ کے نیچے دب سی گئی۔
چاروں بچے گھونسلے میں منتظر تھے۔بھوک کے مارے براحال تھا۔ان چاروں کو ہی اڑنا نہ آتا تھا۔سب سے بڑی آپا چڑیا تھی اور سب سے چھوٹا ننھا چڑا تھا،اُن کے درمیان بھوری چڑیا اور مٹی چڑیا تھی۔آپا چڑیا سب کو گھونسلے کے کناروں پر جانے سے باز رکھ رہی تھی۔
اور بھوری چڑیا اور مٹی چڑیا شور مچا رہی تھیں“اماں کہاں رہ گئی؟ ہمیں بھوک لگ رہی ہے۔“ان دونوں کا یہی شور تھا۔
”اماں جہاں بھی ہوگی،آجائیں گی۔تم لوگوں کے کناروں پر جانے سے اماں نے واپس نہیں آجانا۔آرام سے بیٹھو۔
“آپا چڑیا نے دونوں کو جھڑکا۔
ننھا فوراََ آپا چڑیا کے پیروں سے آکر لپٹ گیا۔”آپا بہت بھوک لگی ہے ۔اب مجھ سے صبر نہیں ہو رہا۔“
آپا چڑیا نے ننھے کو اپنے پنکھوں سے تھپکا اور تاسف سے بولی”تم میں سے کسی کو اماں چڑیا کا خیال بھی ہے یا نہیں؟میں تو سوچ رہی ہوں کہ اس طوفان میں وہی بخیروعافیت گھر واپس آجائیں،یہی کافی ہوگا۔
بھوک تو برداشت ہو جائے گی۔بس ہماری اماں ٹھیک حال میں ہم سے آملیں۔“آپا چڑیا کی یہ با ت سن کر تینوں کے دل یکبارگی کانپے۔اور سب ہی اللہ خیر کا ورد کرنے لگے۔
کچھ دیر تو گھونسلے میں سکون رہا ،لیکن پھر بھوک واپس اُن سب کے دماغ پر چڑھ گئی۔
بھوری چڑیا اور مٹی چڑیا کو اتنی بھوک لگی کہ گھونسلوں کے تنکوں کو ہی چونچ مارنے لگ گئیں۔ننھا چڑا بھی قریب قریب بے ہوش ہونے والا تھا۔اب طوفان تھم چکا تھا،لیکن اماں چڑیا کی واپسی کا کوئی امکان نظر نہ آرہا تھا۔تینوں کی حالت دیکھ کر آپا چڑیا نے اڑنے کی ٹھانی۔
”آپا ہمیں تو اڑنا نہیں آتا۔یونہی ہمارے متھے نہ لگ جانا۔“بھوڑی چڑیا نے ناک چڑھا کر کہا۔
”ہر کوئی کبھی نہ کبھی پہلی دفعہ تو اڑتا ہے۔میں بھی سیکھ لوں گی۔“آپا چڑیا نے پرعزم لہجے میں کہا۔پھر سب نے گھونسلے کے کنارے سے دیکھا کہ آپا چڑیا اڑتے اڑتے سبز پتوں اور بھورے تنوں سے دور ہوتی گئی۔
اڑان بھر نا مشکل نہیں ہے،لیکن اڑان بھرنے کا ارادہ کرنا زیادہ مشکل ہے۔جب ایک دفعہ ارادہ ہو جائے تو آگے کا کام خودبخود آسان ہو جاتا ہے۔
آپا چڑیا گرتی پڑتی اڑنا سیکھ گئی۔یہاں وہا ں ڈولتی تین درخت دور پہنچی تو کسی کے ہلکے سے کراہنے کی آواز آئی۔
غور سے آس پاس دیکھا کچھ نہ ملا۔آواز پھر آئی تو دیکھا ایک پتہ تھر تھرا رہا تھا۔اُس پتے کو چونچ مارکر ہٹانے کی کوشش کی۔یہ تو اُس کی اماں چڑیاں تھی۔اور اُن کا حال برا ہو چکا تھا۔
آپا چڑیا نے چوں چوں کر کے سارا چمنستان سر پر اٹھا لیا۔
ریچھ بونو آیا تو آپا چڑیا نے اُس کی توجہ اماں چڑیا کی جانب مبذول کروائی۔صرف ایک ہاتھ کی مار تھی․․․․․․بانورریچھ نے ایک ہی ہاتھ سے شاخ کو اماں چڑیا سے پرے پھینکا۔اماں چڑیا کو ہلانے جلانے کی کوشش کی،لیکن انہوں نے منہ نہ کھولا۔
کچھ دیر تنفس بحال کر کے اماں چڑیا اڑنے لگی۔
آپا نے بہت پوچھا اماں بتاؤ کیا ہوا ہے؟منہ سے بولو لیکن اماں چڑیا نے منہ نہ کھولنا تھا نہ کھولا۔اماں چڑیا کا منہ گھونسلے تک بند ہی رہا۔آپا چڑیا کے سنگ دھیرے دھیرے اڑتے وہ اپنے گھونسلے پہنچی۔
اُن کی اڑان ایسی ہی تھی جیسے کوئی پرندہ اپنی پہلی اڑان بھرتا ہے۔
کنارے سے لگے تین نفوس میں زندگی بھر گئی۔اُن کی بھوک میں بھی تیزی آئی،لیکن اماں کو دیکھنے کا سکون طمانیت بن کر اُن کی آنکھوں سے جھلملانے لگ گیا۔
گھونسلے کے فرش پر جب اماں چڑیا لیٹ گئی اور تینوں اُس سے چمٹ گئے تو اماں چڑیا کا منہ کھلا۔اُس میں اناج کے دانے تھے۔
صرف پانچ منٹ
تین بج چکے تھے مگر حسن ابھی تک ٹی وی لاؤنج میں براجمان تھا۔امامہ آپی نے اُسے وہاں دیکھا تو چڑسی گئی۔
”اسے حسن آپ نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی۔سواایک بجے اذان ہو جاتی ہے اور موصوف کوئی نہ کوئی لولا لنگڑا عذر پیش کرکے تین بجے نماز پڑھتے ہیں۔
منع کرویا سمجھاؤ تو جواب ملتا ہے کہ پانچ بجے تک وقت ہے۔تمہارا بس چلے تو تم ساری نمازیں ایک ساتھ ہی ادا کرلو۔بار بار وضو بھی نہ کرنا پڑے۔“امامہ آپی کی جلی کٹی سننے کے بعد بھی حسن ٹس سے مس نہ ہوا۔
کہنے لگا”بس یہ پروگرام ساڑھے تین بجے ختم ہوتا ہے تو میں نماز پڑھتا ہوں۔
“
امامہ آپی نے جا کر رائمہ آپی کو شکایت لگادی۔رائمہ آپی بولی”اچھا تم خاموش رہو۔عصر کی نماز کے بعد وہ میرے پاس پڑھنے آئے گا تو میں اُسے سمجھادوں گی۔
“
شام کو حسن رائمہ آپی کے پاس جا کر بیٹھا اور کتابیں نکالنے لگا۔
رائمہ آپی نے حسن کو ٹوک دیا”نہیں حسن! آج ہم نصابی کتاب سے کچھ پڑھنے کی بجائے عملی زندگی کے متعلق بات کریں گی۔آپ یہ بتائیں کہ وقت پر نماز کیوں نہیں ادا کرتے؟“
”باجی!دیکھیں ہمارے پاس اور بھی کام ہوتے ہیں،مشاغل ہوتے ہیں۔
تو میرے خیال میں اُن کو نبٹا کر نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔“حسن نے جواب دیا۔
رائمہ آپی نے حسن کا مئوقف سنا اور کچھ توقف کے بعد بولی”دیکھو حسن! ہم نماز پڑھتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت اور محبت کے حصول کی خاطر۔
تو جب اللہ تعالیٰ نے ادائیگی نماز کے لیے وقت مقرر کیا ہے تو کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے کہ اُس وقت سے روگردانی کریں۔اگر تمہیں کوئی بہت عظیم شخص ملنے کے لئے بلائے تو کیا تم اُس کے دیئے گئے وقت میں تبدیلی کروگے؟دیر سے جاؤ گے؟نہیں ناں؟تو اللہ عظیم کون ہے؟اور جس وقت مئوذن اذان دیتا ہے تو ہر مسلمان انہی الفاظ کر دہراتا ہے اور ان الفاظ کے سبب قلب مسلم پر محبت الہٰی کا سحر طاری ہو جاتا ہے۔
اور ہم اگر اسی سحر کے زیر اثر نماز ادا کریں تو یقینا خشوع وخصوع سے ادا کرپائیں گے۔اور ویسے بھی نماز میں وقت ہی کتنا لگتا ہے؟زیادہ سے زیادہ 20 منٹ اور اگران 20 منٹوں کے بدلے انسان کو مالک کائنات کی محبت اور قربت کا حصول ہوتا ہے تو یہ ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
ساری زندگی میں اگر ہردن نماز مقرر وقت پر ادا کریں تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔اس لیے ہمیں وقت پر نماز پڑھنی چاہیے۔ویسے بھی تم نے بی اماں کو کہتے سنا ہوگا”ویلے دی نماز کو ویلے دیاں ٹکراں“یعنی جو وقت پر ادا ہوجائے وہی نماز ہے اور جو بے وقت ادا کی جائے وہ صرف ٹکریں ہی ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہمیں نماز کی ادائیگی کا وقت اپنے روزمرہ کے کام دھندے کی مناسبت سے طے نہیں کرنا چاہیے بلکہ کام دھندے نماز کے اوقات کی مناسبت سے کرنے چاہیے۔امید ہے کہ میری بات سمجھنے کی نہ صرف کوشش کرو گے بلکہ اس پر عمل بھی کرو گے۔
کیونکہ علم بغیر عمل کے بیکار ہے۔“
رائمہ آپی کے چپ ہونے پر حسن سرجھکائے کمرے سے باہر گیا۔امامہ آپی نے حسن کر گیٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو بولی”ارے حسن کہاں جارہے ہو؟“
”نماز پڑھنے“حسن نے مختصر جواب دیا۔”مگر ابھی تو نماز میں وقت ہے۔”امامہ آپی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا”صرف پانچ منٹ“حسن نے جواب دیا اور دونوں بہن بھائی کھلکھلا اٹھے۔
حاتم طائی کا ایثار
عرب میں اسلام سے پہلے جہاں ہر طرف برائیاں ہی برائیاں تھیں وہاں کچھ اچھے لوگ بھی تھے۔جن میں سے ایک حاتم بھی تھا۔حاتم کے بارے میں بے شمار کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔جن میں سے اگر مبالغہ نکال بھی دیا جائے تو پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ حاتم کی سخاوت ضرب المثل ہے۔
اسلام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت مثالی ہے،اُن کے بارے میں بے شمار واقعات مشہور ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ حضرت عثمان غنی کے مال وزر اور عطیات وسخاوت کی وجہ سے اسلام کے پھیلاؤ میں بڑی سہولت پیدا ہوئی۔
حاتم کا تعلق”طے“نامی ایک قبیلے سے تھا۔
اِسی کی نسبت سے اُسے حاتم طائی کہا جاتا ہے۔وہ یمن کا حکمران تھا۔یمن کا علاقہ عرب سے جڑا ہوا تھا۔عرب پر اُن دنوں نوفل نامی بادشاہ کی حکومت تھی۔
وہ حاتم کی سخاوت اور علاقے میں مقبولیت سے بہت پریشان تھا۔اُس کی سخاوت سے محض یمن کے لوگ ہی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اُس تک پہنچ جانے والا ہر شخص اُسکی سخاوت سے فائدہ اٹھاسکتا تھا۔
بہت سے لوگ تو محض اس کا امتحان لینے ہی اس کے پاس چلے جاتے اور وہ ہمیشہ ہر امتحان میں کامیاب ہوا۔ایک مرتبہ کسی کو معلوم ہوا کہ حاتم طائی کے ذاتی استعمال کا گھوڑا بہت قیمتی ہے کیوں نہ وہ حاصل کیا جائے،چنانچہ ایک شخص اُسکا امتحان لینے پہنچ گیا۔
حاتم اُس روز شکار کرنے کیلئے نکلا ہوا تھا۔اتفاق سے اُس روز اُسے شکار بھی نہیں ملا۔جب وہ واپس پہنچا اور اُسے معلوم ہوا کہ کوئی مہمان اُس کا انتظار کر رہا ہے تو اُس نے اپنے ملازمین سے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ایک ملازم نے کہا؛”سرکار آج کھانے میں گوشت کا سالن نہیں بن سکے گا کیونکہ تازہ گوشت نہیں ہے۔
“
حاتم کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کرسکتی تھی کہ اُس کے دسترخوان پر مہمان کیلئے گوشت کا سالن بھی نہ ہو۔اُس نے کہا آج ہمارا محبوب گھوڑا ہی ذبح کر کے پکا لیا جائے۔یہ فیصلہ ہوئے اُسے شدید دکھ بھی ہورہا تھا مگر اسکے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔
کھانا تیار ہوا،حاتم نے اپنے مہمان کی تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔مہمان بھی بہت خوش تھا۔صبح جب مہمان کے جانے کا وقت ہوا تو مہمان نے رخصت ہونے سے قبل اُسکی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے حاتم کی سخاوت کی بڑی شہرت سنی ہے اگر وہ اپنا پسندیدہ گھوڑا بھی اُسے عنایت کردے تو بڑی بات ہوگی۔
حاتم اُس کی یہ بات سن کر کچھ افسردہ ہوا مگر پھر کہنے لگا میرے معزز مہمان یہ فرمائش اگر آپ گزشتہ سال سے پہلے ہی کردیتے تو اس کی تعمیل ضرور کرتا مگر اب یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ میرا پسندیدہ گھوڑا اب آپ کے پیٹ میں پہنچ چکا ہے۔
اسکے ساتھ ہی اُس نے ساری مجبوری بتائی اور اُسے اشرفیوں سے بھری تھیلی نذرانہ کے طور پر دی کہ اس دولت سے وہ اس گھوڑے سے بھی قیمتی گھوڑا خرید سکے گا۔مہمان حاتم کی سخاوت کا گرویدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پشیمان بھی تھا کہ اُس کی وجہ سے ایک قیمتی گھوڑا ذبح ہو گیا۔
اس نے اشرفیوں کی تھیلی لینے سے انکا ر کردیا مگر حاتم نے کہا یہ آپ کو رکھنا ہی ہوگی۔کیونکہ میں اپنے مہمان کی فرمائش پوری نہ کرسکا ہوں۔
حاتم سخی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نرم دل بھی تھا۔اُس روز اسے اس بات کا ملال ہورہا تھا کہ وہ اپنے مہمان کی خواہش پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ مہمان اُس کی نرم دلی اور سخاوت کے گُن گاتا ہوا اپنے گھر چلاگیا۔
ادھر عرب کا نوفل بادشاہ سوچ رہا تھا کہ اگر حاتم کی سخاوت اور مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی تو پھر لوگ اُس کی ہی طرف جائیں گے کوئی اُسکی طرف نہ آئے گا۔اس نے ایک بہادر اور طاقتور سپاہی سے کہا کہ وہ حاتم کو قتل کردے،اسکے عوض اسے بھاری انعام ملے گا۔
حاتم کیونکہ نیک دل اور سخی انسان تھا ،اسلئے وہ اپنے ساتھ محافظ نہیں رکھتا تھا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ موت جب آنی ہے تب ہی آئیگی اور جب آئے گی تو کوئی محافظ اسے بچا نہیں سکے گا۔بادشاہ نوفل کا بھیجا ہوا سپاہی ایک مہمان کے روپ میں حاتم کے محل پہنچ گیا۔
ایک رات جب سب لوگ سورہے تھے۔وہ سپاہی خاموشی سے حاتم کی خوابگاہ تک پہنچ گیا۔اس نے دیکھا کے حاتم گہری نیند سورہا ہے۔ تو اس نے اپنی کمر سے بندھے خنجر کو نکالا اور پوری طاقت سے اُس پر وار کر دیا۔عین اُسی وقت حاتم نے کروٹ لی اور سپاہی کا نشانہ چونک گیا۔
اور وہ حاتم کے اوپر گرگیا۔حاتم اس دوران نیند سے بیدار ہوچکا تھا۔اس نے اپنے مہمان سپاہی کو قابو کرلیا اور اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟کیا اسکی مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟
سپاہی نے حاتم کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔
حاتم نے اسے کہا مجھے قتل کر کے اگر تمہیں دولت ملتی ہے تو فوراََ قتل کردے۔اس سے پہلے کے میرے ملازم آجائے تم مجھے مار سکتے ہو میں مزاحمت نہیں کرونگا“۔سپاہی یہ سمجھ رہا تھا کہ اب اس کی موت آگئی کیونکہ حاتم کی پکڑ سے اس کا نکل جانا ممکن نہیں تھا۔
حاتم کا یہ رویہ دیکھ کر سپاہی کہنے لگا حضور مجھے معاف کردیں،مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔میں توبہ کرتا ہوں اور آئندہ سے ہمیشہ آپ کا وفادار رہوں گا۔حاتم نے نہ صرف اسے معاف کردیا بلکہ اشرفیوں سے بھری تھیلی بھی دی کیونکہ اُسے یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کا مہمان اس کے گھر سے خالی ہاتھ جائے۔
پرانا جوتا
ہم اپنی ایک رشتہ دار خاتون کی عیادت کے لئے کھاریاں کینٹ آئے تھے۔وہ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج تھیں۔یہاں مریض کے علاوہ کسی کو زیادہ دیر ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی۔
یہاں میجر رینک کے فوجی افسروں کے لئے بہت خوبصورت بنگلے تھے۔ہر بنگلے میں وسیع لان،رہائشی کمرے ان کے پیچھے سرسبز لان۔گرمی کے دن تھے۔ہم لان میں درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں تلے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔کچھ دیر آرام کے بعد میں اس خوبصورت علاقے کودیکھنے کے لئے گھر سے باہر نکلا۔
گھر کے سامنے چھوٹی سی سڑک کے پار گرین بیلٹ نظر آرہی تھی۔پھر ایک چھوٹا سا نالہ تھا نالے کے پار گھنے درختوں کی قطار میں ایک اور گرین بیلٹ تھی۔پھر جوگنگ ٹریک تھا۔جوگنگ ٹریک کے ساتھ ایک چھوٹی سی ٹرین کی پٹڑی تھی جو اس وسیع پارک کو گھیرے ہوئے تھی۔
پارک میں بچوں کے لئے بہت سے جھولے لگے ہوئے تھے۔ایک جگہ خوبصورت پنجروں میں طوطے،کبوتر،خوگوش،اور جل مرغیاں تھیں۔وہ چھوٹی ٹرین بھی کھڑی تھی جس کی پٹڑی پارک کے گرد کسی ہار کی طرح نظر آرہی تھی۔ یہ ٹرین شاید بچوں کو پارک کی سیر کرواتی تھی۔
اس وقت دوپہر تھی اور پارک میں میرے سوا کوئی نہیں تھا۔ہر طرف ایک سحر انگیز خاموشی کا راج تھا۔کبھی کبھی کسی پرندے کی آواز خاموشی کے سحر کو توڑ دیتی اور پھر سناٹا چھا جاتا۔میں نالے کے پل کو پار کرکے گرین بیلٹ کے کنارے بچھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے مست ہو کر میں نے کرسی کی ٹیک پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں اور مجھے اونگھ آگئی۔
پھر ٹرین کے انجن کی چھک چھک سے میری آنکھ کھل گئی۔سہ پہر ہوگئی تھی۔ٹرین بچوں کو لیے پٹڑی پر رواں دواں تھی۔جہاں پہلے خاموشی کا راج تھا وہاں ان میلے کا سا سماں تھا،جھولوں کے آس پاس بچوں کا ہجوم لگا تھا۔
میدان کے وسط میں میری نظر ایک نوجوان کھلاڑی پر پڑی ۔وہ خوبصورت سپورٹس شرٹ اور لونگ نیکر پہنے ہوئے تھا۔پاؤں میں قیمتی جوگر نظر آرہے تھے۔ وہ ہاتھوں میں فٹ بال تھامے ہوئے تھا۔ایک لمحے کو میرا دل چاہا کہ اس نوجوان سے بات کروں مگر پھر اپنے معمولی کپڑوں اور پرانی جوتی کا خیال کرکے میں رک گیا۔
اپنی خستہ حالت دیکھ کر میں احساس کمتری کا شکار ہوگیا اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکا۔
پھر اچانک وہ نوجوان کھلاڑی مجھے اپنی طرف آتا نظر آیا۔جب وہ کچھ قریب آیا تو مجھے اس کی حالت کچھ عجیب سی لگی پھر وہ میرے پاس آکر رک گیا۔
میں نے دیکھا اس کے دونوں پاؤں ٹیڑھے تھے۔
یہ فٹ بال تمہارا ہے؟۔میں نے یونہی اس سے بات کرنے کے لئے پوچھ لیا مگر وہ سپاٹ چہرے اور بے تاثر نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔کوئی جواب نہ دیا۔
میں نے پھر اپنا سوال دہرایا ،وہ چند لمحے خاموشی سے مجھے دیکھتا ریا پھر بولا”ہاں“میں سمجھ گیا دونوں پاؤں کے علاوہ ذہن بھی غیر متوازن تھا۔
وہ بات کا مفہوم دیرسے سمجھتا تھا۔
”تمہارے ساتھی کھلاڑی نظر نہیں آرہے؟“ میں نے پھر پوچھا۔کچھ ٹھہر کر اس نے گراؤنڈ کی طرف اشارہ کیا اور بولا”وہ وہاں ہیں“مگر میں نے دیکھا گراؤنڈ میں کوئی کھلاڑی بھی نہیں تھا۔
پھر اچانک اس نے بچوں کی طرح قلقاری ماری اور گراؤنڈ کی طرف بھاگا مگرابھی چند قدم ہی بھاگا تھا اس کے پاؤں آپس میں الجھے اور وہ منہ کے بل گڑ پڑا۔فٹ بال اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔میں آگے بڑھ کر اسے اٹھایا۔اس کا فٹ بال اسے دیا اور وہ آڑا ترچھا چلتا گراؤنڈ کی طرف چل پڑا۔
میں چند لمحے اسے جاتا دیکھتا رہا پھر میری نظر اپنے لباس سے ہوتی ہوئی اپنے قدموں پر جم گئی۔میرے پاؤں میں جوتا پرانا تھا مگر شکر الحمداللہ میرے پاؤں سیدھے تھے۔
لالچ کی سزا
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب لکڑہارے کو جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوئے درختوں کے جھنڈ میں کوئی چیز نظر آئی۔اُسکے قریب جا کر دیکھا تو وہ پتھر کا ایک بت تھا۔لکڑہارے نے اُس پتھر کو ہٹایا تو وہاں ایک چھوٹا ساسوراخ نظر آیا۔
لکڑہارے نے سوراخ کے ارد گرد سے مٹی ہٹائی تو اُسے ایک بہت بڑا خزانہ نظر آیا۔لکڑہارا اتنے بڑے خزانے کو تنہا نہیں اٹھا سکتا تھا،چنانچہ اُس کو ڈھانپ کر واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا۔راستے میں اُسکی ملاقات ایک سوداگر سے ہوئی جو کہیں سے اپنا مال فروخت کرکے آرہا تھا اُسکے ہمراہ چھ اونٹ تھے۔
لکڑہارے نے سوداگر سے کہا: مجھے جنگل میں بہت بڑا خزانہ ملا ہے اور میں تمہیں صرف ایک شرط پر اُس جگہ لے جاؤں گا۔سوداگر نے بڑی بے صبری سے کہا:”جلدی بتاؤ،میں تمہاری ہر شرط ماننے کو تیار ہوں“۔
لکڑہارے نے کہا؛ جتنے اونٹ اُس خزانے میں سے بھرو ،اُن میں سے آدھے مجھے دے دو گے“سوداگر جھٹ سے بولا؛میں تمہیں آدھے اونٹ دے دوں گا تم مجھے وہاں لے چلو۔
“
لکڑہارا رضا مند ہوگیا اور اُسے جنگل میں لے گیا۔لکڑہارے نے سوداگر کو خزانہ کی جگہ دکھائی اور سارے اونٹوں پر خزانہ لاد دیا۔اُس جگہ سے ایک چھوٹی سی ڈبی میں قیمتی لعل بھی ملا جو لکڑہاڑے نے اپنی جیب میں رکھ لیا۔حسب وعدہ سوداگر نے خزانے کے تین اونٹ لکڑہارے کے حوالے کردئیے ۔
کچھ دور جا کر سوداگر کو خیال آیا کہ خوامخواہ نصف حصہ لکڑہاڑے کو دے دیا۔اگر اُسے کم اونٹ بھی دیتا تو تو یہ مان جاتا۔یہ سوچ کر اُس نے لکڑہاڑے سے کہا؛ اے پیارے لکڑہارے ،بے شک میں نے تمہیں آدھے اونٹ دے دئیے ہیں مگر آپ کیلئے تو دو اونٹ بھی کافی ہیں ۔
اگر آپ مجھے ایک اونٹ مزید دے دو تو آپ کی مہربانی ہوگی“۔لکڑہارے نے کہا؛”جناب آپ ایک اونٹ مجھ سے لے سکتے ہیں ،میرے لئے تو دو بھی کافی ہیں،۔سوداگر نے اونٹ ملنے پر اُسکا شکریہ ادا کیا مگر لالچ نے اُسے چین نہ لینے دیا تھوڑی دور جانے کہ بعد سوداگرنے پھر لکڑہارے سے کہا”باباجی! آپ تو درویش آدمی ہیں اور میں ٹھہرا دنیا کا کتا۔
باقی دو اونٹ بھی مجھے دے دیں،میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،آپکو دعائیں دیں گے۔لکڑہارے نے کہا کہ ”میرے بھائی !اگر تو میں نے تمہیں باقی کے دواونٹ بھی دے دئے تو میرے پاس کیارہ جائے گا“
سوداگر نے اُسے جواب دیا؛ میں آپ کو کچھ رقم دیتا ہوں یہ آپ کیلئے کافی ہوگی“
لکڑہارے نے وہ دو اونٹ بھی سوداگر کو دے دئیے۔
سوداگر میں لالچ کی انتہا ابھی بھی ختم نہ ہوئی تھی۔اُس نے سوچا کہ کیوں نہ لکڑہارے سے وہ رقم بھی واپس لے لے اور جنگل میں دفن باقی خزانہ بھی حاصل کر لیا جائے۔یہ سوچ کروہ خزانے کے چھ اونٹ اپنے نوکر کو دے کر خزانے کی تلاش میں جنگل میں نکل گیا۔
خاصی دیر تک تلاش کرنے کے بعد بھی اُسکو خزانہ نہ ملا۔تھک ہار کر وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا کہ ایک شیر اُدھر آنکلا۔سوداگر بھاگنے کی کوشش کی مگر شیر نے ایک ہی چھلانگ لگا کر سوداگر کو دبوچ لیا اور اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔سوداگر کا لالچ اُسے لے ڈوبا جس سے اُس کی جان چلی گئی اور اُس کا مال و اسباب بھی دنیا میں ہی رہ گیا۔
نیکی ضائع نہیں جاتی
صدیوں پرانی بات ہے ہندوستان پر اس وقت کے راجہ مہاراجے حکومت کیا کرتے تھے ۔ ایک ہندو راجے نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا ہوا تھا، وہ ایک ظالم بادشاہ تھا،بات بات پر وزیروں کو قتل کروادیا کرتا تھا۔
اُس کا ایک وزیر ایک عقلمند اور رحمدل شخص تھا ، وہ رعایا سے نیک سکول کرتا تھا اور اُن کی مدد بھی کرتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ دریا کی دوسری طرف جانے کیلئے دریا پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کے ایک ملاح نئی کشتی لئے اُس کے استقبال کیلئے موجود ہے۔
جب وہ دوسری طرف پہنچا تو وزیر نے دیکھا کہ بادشاہ کے ہر کارے کشتی پر قبضہ کرنے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔ وزیر نے ملاح کی کشتی ان سے بچا لی تو وہ وزیر کا شکریہ کرتے ہوئے واپس لوٹ گیا۔
کچھ عرصے بعد کسی نے اس مسئلہ پر وزیر کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنا شروع کردیئے۔
بادشاہ تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا کہ کس طرح وزیر سے بدلہ لے۔ کچھ عرصے پہلے دوسرے بادشاہ بنے اُسے سفید ہاتھی کا تحفہ دیا تھا، وہ بچہ تھا مگر اب جوان ہوگیا تھا، بادشاہ بمعہ اپنے وزراء اور درباریوں کے اسے دیکھنے گیا۔
تمام درباری اور وزراء اُسکی تعریف کررہے تھے۔ بادشاہ وزیر سے انتقام لینا بھولا نہیں تھا۔ اُس نے وزیر سے کہا: مجھے اس ہاتھی کا ٹھیک وزن بتاؤ ورنہ تمہیں قتل کردیا جائے گا، دس دن کی مہلت ہے۔
وزیر بہت پریشان ہوا وہ مختلف تدبیروں کا سوچنے لگا مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
وہ پریشانی کے عالم میں د ریا کی طرف نکل گیا اور وہاں بیٹھ کر سوچ وبچار کرنے لگا۔ اِسی دوران وہی کشتی والا بزرگ اُس کے پاس آیا اور جھک کرسلام کیا۔ وزیر کو پریشان دیکھاکر پوچھا: وزیر محترم ! کیا بات ہے، آپ پریشان لگ رہے ہیں۔
ہاں بزرگو ! بادشاہ نے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔ دس دن کی مہلت تھی، آج آٹھواں دن ہے، اگر جواب نہ دیا تو میری گردن اُڑادی جائیگی۔
وہ اُلجھن کیا ہے؟ شاید میں کچھ مدد کرسکوں۔
بات یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس ایک سفید ہاتھی ہے، وہ اُسکا وزن بتانے کا کہہ رہا ہے ، ورنہ میری گردن․․․․․․
یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ،چٹکی بجاتے ہی حل ہوگیا ہے، آپ کا مسئلہ ․․․․
میری جان کو بنی ہے، آپ چٹکی بجاتے مسئلہ حل کررہے ہیں۔
وزیر نے حیرت سے کہا۔
جی محترم! آپ کل ہاتھی لائیے ، اسے کشتی پر بیٹھا کر دریا میں اُتارتے ہیں جتنے کشتی پانی کے اند جائے گی، اس پر نشان لگائیں گے پھر اتنے وزن کے پتھر کو نشان تک کشتی پانی میں لیجا کر ڈال کر وزن کرلیں۔
ویری گڈ․․․․ وزیر کی سمجھ میں ساری بات آگئی۔ اگلے دن وہ ہاتھی کو دریا کے کنارے لایا، اُسے کشتی میں سوار کرکے دریا میں لیجا کر کشتی پر نشان لگا دیا۔ پھر اُس نشان تک پتھر ڈال کر وزن کیا گیا پھر اُن پتھروں کا وزن کیا اور بادشاہ کو بتادیا۔
اب بادشاہ حیران ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب اُسے بتایا تو بہت خوش ہو ا ایک نیکی کا یہ صلہ دیا ہے جبکہ اُس وزیر نے بہت سے معاملات میں بادشاہ کی رہنمائی کی تھی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔
نیکی کر دریا میں ڈال وزیر نے ملاح کیساتھ نیکی کی اور ملاح نے نیکی کرکے اس کی جان بچائی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
مہمان اللہ کی رحمت
اشرف صاحب تھکے ماندے گھر لوٹے تو دیکھا کہ اُن کابارہ سالہ بیٹا کاشف اپنی ماں سے اُلجھ رہا ہے۔ کیا ہوابھئی؟ آج موڈ خراب کیوں ہے؟ اُنہوں نے بیٹے سے پوچا۔ ہونا کیا ہے ، پاپا ! ابھی کچھ دن پہلے بڑی آنٹی اپنے بچوں کیساتھ دس بارہ دن ہمارے گھر پر رہ کر گئی ہیں۔
آج ماما جان چھوٹی آنٹی کو فون پر کہہ رہی تھیں کہ ہمارے پاس کب آرہی ہو؟ پھر کیا ہوا کاشف کے پاپا نے کہا۔ ہونا کیا ہے ، ہم ماما سے پاکٹ منی مانگیں تو دس روپے پکڑا دیتی ہیں۔ اگر کہیں کہ دس روپے سے کیا آتا ہے تو کہتی ہیں تمہارے پاپا پرائیوٹ کمپنی میں ملازم ہیں کوئی بنک کے مالک نہیں۔
بھئی مہنگائی کے اِس دور میں دس روپے بھی غنیمت ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے آنٹی کے بچوں کو تو بیس بیس روپے دیتی ہیں۔
اور نان چنے ، دہی بھلے اور بریڈ بھی کھلاتی ہیں۔ کاشف نے جواب دیا۔ بھئی مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں انکی خدمت کرنا پیارے آقاﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔
بات تو آپکی ٹھیک ہے مگر اپنی پاکٹ بھی دیکھنی چاہئے آپ کی سیلر ی میں بیس ہزار روپے ہے اگر ان پر دوہزار خرچ کریں تو ظاہر ہے بجٹ خراب ہوگا اور مہینہ کے آخر پر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے۔ ”نوٹینشن! ادھار کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جب سیلری آئیگی انہیں دے دیں گے․․․“ جو مہمان آتا ہے وہ اپنی قسمت اپنے حصے کا رزق ساتھ لیکر آتا ہے اور تمہیں پتہ ہے بظاہر مہمان کے آنے سے بجٹ خراب ہوتا ہے مگر اسکے عوض اللہ تعالیٰ اُس گھر پررحمتوں کی بارش کردیتا ہے ، وہ بظاہر نظر نہیں آتیں مگر وہ گھرانہ خوش رہتا ہے، ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا! اے میرے رب جب تو خوش ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مہمان بھیجتا ہوں۔
دوسری بار پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا بیٹیاں دیتا ہوں تیسری بار پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ بارش دیتا ہو․․․ آپ خود اندازہ لگاؤ جس گھرانے پر اللہ مہربان ہوتا ہے وہاں مہمان بھیجتا ہے، وہاں کا رزق پہلے بھیج دیتا ہے۔
وہ کیسے؟ پاپا میں سمجھا نہیں ۔ اچھا سنو۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ گھروں میں مہمان آنے پر خوشیاں منایا کرتے تھے اور یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ اگر مہمان کسی ایک گھر میں آتا تو پورے محلے کے گھرانے ایک ایک کرکے مہمان کی تواضع کے متمنی ہوتے۔
مہمان دوسرے گھرانے کی دعوت قبول کر لیتا تو اُس گھر میں خوشی کی لہڑ دوڑ جاتی۔ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ دعوت قبول نہ کرتا تو اچھے اچھے پکوان پکا خود اُس کے گھر میں پہنچائے جاتے تھے۔ کیا اچھا زمانہ تھا اور کیا اچھے لوگ تھے۔
زمین پر بچھی چٹائی پر دسترخوان لگتا تھا۔ جس پر مکئی یا جوار کی روٹی، لسی کا گلاس اور مکھن رکھ دیا جاتا تھا اور اگر․․․پاپا جان آج کونسا دودھ لسی مکھن کا دورہے ،پیزا برگر کا دور ہے۔بھئی وقت وقت کی بات ہے اچھا ایک اور واقعہ سنو:
پیارے آقاﷺ کے دور میں ایک خاتون نے آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوکر عرض کی کہ اسکا شوہر روزکئی مہمانوں کو لیکر آتا ہے۔
اُس نے انکی خدمت نہیں ہوسکتی۔ آپ ﷺ نے اُس خاتون کی بات سن لی ۔ اُسے کچھ نہ کہا۔ کچھ دنوں بعد آپ ﷺ نے اسکے شوہر سے کہا وہ اُن کے گھر مہمان بن کر آنا چاہتے ہیں کیونکہ اس شخص نے جب اپنی بیوی کو بتایا تو اُس خاتون خانہ کوبے حد خوشی ہوئی۔
اُس نے سوچا کہ میں نے جو پیارے آقاﷺ سے شکایت کی تھی شاید میرے شوہر کو سمجھانے آرہے ہیں کہ مہمان نہ لایا کرو۔ تاہم پیارے نبی ﷺ نے کھانا تناول فرمایا اور صحابی سے کہا کہ میں جب گھر سے جاؤں گا تو تمہاری بیوی مجھے جاتا ہوئے دیکھے۔
جب آپ ﷺ تشریف لے گئے تو اُس خاتون خانہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے پیچھے حشرات اور بلائیں بھی گھر سے باہر جارہی ہیں۔ آپ ﷺ نے اُس گھرانے کو درس عظیم دیتے ہوئے کہا کہ جب مہمان گھر سے روازنہ ہوتے ہیں تو اُن کی برکت سے گھر میں موجود بلائیں بھی گھر سے چلی جاتے ہیں۔
اسلئے۔ مہمان کی قدر و منزلت کرنے چاہیے ۔ سبحان اللہ ! کاشف کے منہ سے نکلا۔سوری پاپا جان اب میری سمجھ میں آگیا کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔اب میں خود چھوٹی آنٹی کو فون کرکے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے گھر․․․․․
مہینہ بھر رہیں․․․․․․ننھی سحرش نے کہا سبھی مسکرانے لگے․․․․․․․
بادشاہ کا چور
بہت پہلے جب ہر جگہ بادشاہ ہی حکومت کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک بادشاہ اپنے ایک ملازم سردار سے ناراض ہوگیا اور اُسے دربار سے نکال دیا اور حکم دیا گیاکہ تم دن رات اپنے گھر میں پڑے رہو نہ کہیں باہر جاسکتے ہو اور نہ ہی کہیں کام کرسکتے ہو۔
یہ بظاہر معمولی حکم تھا کیونکہ دن رات گھر میں پڑے رہنا کچھ کام کاج نہ کرنا اور فارغ وقت گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایک آدمی ایک ہی جگہ اور ایک قسم کے لوگوں میں رہتے رہتے گھبرا جاتا ہے اور تو اور بہت وحشت ہوتی ہے۔
وقت کاٹنا دوبھر ہوجاتا ہے چنانچہ اُسکے ساتھ بھی ایسی ہی ہوا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام نہیں کرسکتا تھا۔ سردار بہت پریشان تھا کیونکہ اسکے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔
جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد بادشاہ وزیر اور شہزادے بلائے گئے۔
سردار کو ایک ترکیب سوجھی تو اسکی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔
درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے اُسے لے جا کر بڑے ادب سے دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھا دیا۔ سردار گردن اکرا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا ۔ جشن کی تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اسکے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے رکھے گئے۔
سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپالی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا اور گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔
اِسکے بعد اُسکی بیوی بازار جاتی اور سونے کی رکابی کا ایک ٹکڑا کاٹ کر فروخت کرکے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کے سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے کیلئے ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔
بادشا نے انکی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھرگیا ۔
جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھاناکھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔ دربار ختم ہو تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔
بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹ پٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے ہاتھ بڑھا کر اُسکا ہاتھ پکڑ اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟یہ سنتے ہی سردار کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔
آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا؛”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کردیا گیا تھا۔ کئی مہینوں تک پریشان اور تنگدست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ نازیبا حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔ بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کردی ۔
غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگدستی سے مجبورہوکر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔ جاؤ! اب ایسی حرکت نہ کرنا، چوری بہر حال بری حرکت ہے۔ بادشاہ اور سردار دونوں نے غلطی کی تھی۔ دونوں نے اپنی اپنی غلطی تسلیم کرلی اور ایک دوسرے کا آئندہ کیلئے عبرت حاصل ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ پھر سردار نے کبھی چوری نہ کی اور نہ بادشاہ نے کبھی کسی کو ایسی سزادی۔
جھوٹ
وہاب صاحب ! اپنے بیٹے ابوذر کو لینے کیلئے میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنے کلاس فیلو اور دوست توصیف سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ ”ارے ابوذر ! تم کل سکول کیوں نہیں آئے؟“ توصیف نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا۔
”وہ ․․․․․ وہ دراصل !“ ابوذر سے کوئی جواب نہ بن پارہا تھا۔” ہاں وہ بات یہ ہے کہ کل مجھے سردرد تھا اور معمولی بخار بھی، جس کی وجہ سے میں سکول حاضر نہ ہوسکا‘ آج کچھ صحت بہتر ہے“ ابوذر نے جھوٹ بول دیا۔وہاب صاحب کو دکھ ہوا وہ افسوس کرنے لگے کہ اُن کا بیٹا جھوٹ بولتا ہے ۔
ابوذر اور توصیف باتوں میں مشغول تھے ، انہیں یہ خبر نہ تھی کہ وہاب صاحب اُن دونوں کی گفتگو سن رہے ہیں۔
” ابو ذر ! تمہارے ابو آئے ہیں۔“توصیف نے وہاب صاحب کو دیکھ لیا تھا۔ ابوذر کوسامنے پاکر بوکھلا گیا۔ ”چلو بیٹابیٹے! شام ہوگئی گھر چلو“ وہاب صاحب بظاہر تو مسکرا کر بولے لیکن اندر ہی اندر وہ افسوس کررہے تھے اور بہت دکھی بھی تھے۔
”جی ابو! یہ کہہ کر ابوذر انکے ساتھ چل دیا۔ ”تم نے توصیف سے جھوٹ کیوں کہا کہ تمہیں بخار تھا جبکہ تم نے تو ایسے ہی چھٹی کرلی تھی۔“ راستے میں وہاب صاحب نے اُس سے پوچھا”وہ وہ ابو!چھوٹے موٹے جھوٹ تو آجکل کے زمانے میں چلتے ہیں۔
“ ابوذرنے کہا ”لیکن تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جھوٹ بولنا برے بچوں کا کام ہے، آپ تو اچھے بچے ہونا!“ ابو نے مسکرا کر کہا تو وہ بولا:”جی ابو میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولو گا۔“ ”بہت خوب!“ ابو نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔
”ٹھک ․․․․ٹھک․․․․ٹھک“ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ”ابو ذر بیٹا! جاکر دیکھو کون آیا ہے!“ابونے ابوذر کو آواز دے کرکہا”جی ابو!“ابوذر سعادت مندی سے دروازہ کھولنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو بولا: ”ابو ! آپکا دوست شوکت آیا ہے۔
“ ”اوہو!جب دیکھو پریشان کرنے چلا آتا ہے‘پتہ نہیں اور کام نہیں ہوتے اِسے‘ بدتمیز کہیں گا۔ ابو غصے سے بول رہے تھے۔ ”ابو ذر! اِسے کہو ابو دفتر سے ابھی نہیں لوٹے۔“ وہاب صاحب نے کہا۔ وہ دروازے کی طرف گیا اور کہنے لگا؛انکل ابو جان نے آپکو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا ہے کہ اُسے جاکر کہہ دو کہ دفتر سے نہیں لوٹا‘ معلوم نہیں اُنہوں نے جھوٹ کیوں بولا‘ ویسے وہ مجھے جھوٹ سے بچنے کا کہتے ہیں۔
“ ابوذر نے اداس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ شوکت کو جھٹکا لگا اور وہ حیران ہوکر بالا:“کیا؟ وہاب مجھے برا بھلا کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے‘مجھے اُس سے یہ اُمیدہرگز نہیں تھی۔ شوکت چلا گیا اور ابوذر بھی اپنے دماغ میں کئی سوال لئے گھر میں آگیا۔
شام کاکھانا کھانے کے بعد وہاب صاحب کے موبائل پر گھنٹی بجی۔ اُنہوں نے سکرین پر دیکھا تو شوکت لکھا تھا ۔اُنہوں نے کال ریسونہ کی مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے کال ریسوکی اور فون کان سے لگا کر ”ہیلو“ کہا۔
دوسری جانب شوکت کی افسوس اور دکھ بھری آواز آئی:“ وہاب ! تم سے یہ امیدنہیں تھی تم نے مجھے برا بھلا کہا‘تمہارے بیٹے نے مجھے سب بتا دیا اصل بات تو یہ ہے کہ تم دوستی کے لائق نہیں ہو،تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہوآج کے بعد تیری میری دوستی ختم!”اتنا کہہ کر شوکت نے فون بند کردیا۔
وہاب صاحب کوابوذر پر غصہ آیا‘انہوں نے اُسے بلایا اور ڈانٹتے؛ ”تم نے شوکت کو ہر وہ بات بتادی جو میں نے اسکے بارے میں کہی تھی۔“”ابو!آپ بھول گئے؟“جواب دینے کی بجائے ابوذر نے سوال داغ دیا”کیا؟“ ابو! آپ پرسوں والی بات بھول گئے جب میں نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا تو آپ نے مجھے نصیحت کی کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے لیکن آپ وہ نصیحت بھول فراموش کرگئے‘ آپ نے مجھے تو جھوٹ بولنے سے روکا تھا مگر خود آپ نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا اور مجھ سے بھی کہاکہ اُسے جھوٹ بول دوں کہ آپ ابھی دفتر سے نہیں لوٹے‘ آپ نے مجھے تو نصیحت کی لیکن خود عمل نہیں کیا۔
پھر فائدہ کیا مجھے نصیحتیں کرنے کا؟ میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا کیونکہ جس دن آپ نے مجھے جھوٹ بولنے سے روکا تھا، اسی دن سے میں جھوٹ سے نفرت کرتا ہوں اور سچ کا ساتھ دیتا ہوں‘ اِسلئے میں نے شوکت انکل سے سب کچھ سچ کہہ ڈالا۔
“ ابوذر نے اس قدر معصومیت سے کہا کہ وہاب صاحب کو اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔”بیٹے!تم سچ کہتے ہو‘ میں جھوٹ بولتا ہوں‘ اب میں بھی تمہاری طرح اچھا بچہ اور سچ بولنے والا بچہ بن گیا ہوں۔“”کیا ابو آپ بچے ہیں؟“ ابوذر نے حیرانگی سے کے عالم میں پوچھا۔
”ارے نہیں! سچ بولنے والا آدمی بن گیا ہوں۔”وہاب صاحب کو اپنی بات پر ہنسی آگئی تھی۔ ”ابوہم کل جا کر شوکت انکل کو منائیں!“ ٹھیک ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ابوذر کو گلے سے لگا لیا۔
اذان کا احترام
”بیٹی مریم ! ٹی وی بند کرو اذان ہورہی ہے“۔ ”اچھا ماما جان ! بند کرتی ہوں“ مریم نے جواب دیا ، مگر ٹی وی چلتا رہا ۔ ”سنا نہیں؟ ٹی وی بند کرو“ اب ماما نے تیز آواز میں کہا۔
ابھی کرتی ہوں ”ریموٹ نہیں مل رہا“ مریم نے کہا۔ اتنے میں فاطمہ کی آواز آئی مجھے ثمرن نے چٹکی کاٹی ہے جبکہ ثمرن چلانے لگی پہلے مجھے فاطمہ نے دھکا دیا۔ (ٹی وی چل رہا ہے)آکر تنگ آکر ماما کچن سے باہر آئیں دیکھا کہ بچے آپس میں دھینگا مشتی کررہے ہیں۔
ریموٹ موسیٰ نے پکڑا ہے جو کارٹون دیکھنے کی ضد کررہا ہے۔ اتنی دیر میں اذان بھی ختم ہوگئی۔ ماما اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گئیں کہ ان بچوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اذان کا جواب دیناواجب ہے، یہ تو اللہ کی طرف سے پکار ہے ۔
جب والدین کی آواز پر نہ آنا گناہ ہے تو اللہ کے حکم کو نظر انداز کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ تمام دنیاوی کام کاج چھوڑ کر پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر نماز کا اہتمام کریں، اِسکے بعد دنیاوی کاموں میں دلچسپی لیں۔ میں تمہارے پاپا کو بتاؤں گی کہ تم نے آج کیا کیا؟ رات کو جب اُن کے پاپا آئے تو ماما نے سارا قصہ کہہ سنایا۔
پایا نے بچوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر بتایا؛”پیارے بچو! دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہونے والی آواز اذان کی ہی ہے۔ یہ واحد آواز ہے جو ہر لمحہ دنیا میں گونجتی رہتی ہے۔ اِسکا جواب دینے والے پر فرشتے رحمت برساتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جتنا ثواب اذان دینے والے جو ملتا ہے ، اتنا ہی ثواب گھر ، دفتر یا باہر کہیں بھی بیٹھے فرد کو اِس کا جواب دینے سے ہوتا ہے۔ پاپا نے اُنہیں ایک تاریخی واقعہ بھی سنایا”خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ نے مکہ شریف اور مدینہ شریف کے درمیان حاجیوں کی سہولت کیلئے ایک نہر کھدوائی تھی۔
خلیفہ وقت نے اُسکا نام ”نہرزبیدہ‘ رکھ دیا تھا ۔ جب ملکہ زبیدہ کا وصال ہو ا تو ایک معزز عورت نے ملکہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا؛”تیرے ساتھ خد ا نے کیا معاملہ کیا؟“ ملکہ نے کہا؛ ”اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا “ ”اس عورت نے پوچھا؛ کیا نہرو زبیدہ کی وجہ سے؟“ ملکہ نے کہا؛ نہیں اذان کے احترام کی وجہ سے ۔
مجھے ایک مرتبہ سخت پیاس لگی تھی، میں نے خادمہ کو پانی لانے کیلئے کہا۔ جونہی خادمہ پانی لائی، اذان شروع ہوگئی۔ میں نے پانی نہیں پیا بلکہ اذان کا جواب دینے لگی۔ بس یہی نیکی میرے اللہ نے قبول فرمالی اور مجھے بخش دیا“ دیکھا بچو! اذان کا احترام اور جواب دینے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کتنا بڑا انعام دیتا ہے۔
سب بچوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ اذان کا احترام کیا کریں گے۔ میری بھی تمام بچوں سے گزارش ہے کہ اذان کا احترام کیا کریں اور نماز بھی پابندی سے پڑھیں۔
وفادارکتا
کھیرتھرپہاڑی سلسلہ270کلومیٹر کی ایک پٹی کی صورت میں سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد ہے۔اس پہاڑی سلسلے کاایک حصہ کراچی کے شمال میں آکر ختم ہوتاہے،جب کہ ایک حصہ بلوچستان کے ضلع خضدارمیں بروہی پہاڑی سلسلے سے جاملتاہے۔
اس پہاڑی سلسلے کے سب سے اونچے پہاڑ کانام”ڈارھیاروپہاڑ“ہے،جوسطح سمندر ہے7000فیٹ کی بلندی پرواقع ہے۔اس عظیم الشان پہاڑ پرایک وفادار کتے کی قبرموجودہے۔
پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک دفعہ ڈاڑھیاروپہاڑکی چوٹی پرایک بروہی نوجوان اپنی کدال سے قبرکھودرہاتھا۔
وہ دکھ سے نڈھال تھا اور پسینے میں ڈوبا ہواتھا۔قبر کھود نے کے بعد اس نے ایک بوری کھولی۔بوری میں ایک کتاتھا۔اس کی آنکھیں بندتھیں۔
اس کے جسم میں زندگی کی کوئی علامت نہ تھی۔ وہ بے چارہ اب اس جہاں میں نہیں رہاتھا۔نوجوان نے اس کتے کوقبرمیں لٹادیااور اس کے اوپرپتھر رکھنے لگا۔
اس دن ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔بروہی نوجوان نے اپنے وفادار کتے کی قبرپرآخری پتھر رکھا۔ کچھ دیر بعدوہ اُٹھا اور دھاڑیں مارمارکررونے لگا۔صرف وادیاں اور پہاڑہی اس کی آواز سن سکے۔ اس نے پورادن وہاں گزارا اور شام کو روتا ہوا اپنے گھر چلاگیا۔
گھرمیں بھی اسے سکون وقرارنہ مل سکا۔اسے اپنے وفادارکتے کے ساتھ گزارے ہوئے دن بہت یادآنے لگے۔
ڈاڑھیاپہاڑنیچے یہ بروہی نوجوان ایک پہاڑی گاؤں میں رہتاتھا۔ایک دن اس نے ایک چھوٹے سے کتے کو پہاڑوں میں بھٹکتے ہوئے دیکھ لیا۔
یہ چھوٹاساکتا بہت ہی خوب صورت تھا۔ نوجوان نے اسے پکڑلیااور جھونپڑی میں لے آیا۔ نوجوان اس کابہت خیال رکھنے لگا۔کتا جوان ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ بروہی نوجوان اور کتے کاپیاربڑھنے لگا۔وہ دن رات مالک کے ساتھ رہتاتھا۔ پوری وادی میں ان کے پیار اور محبت کے چرچے ہونے لگے۔
گاؤں میں ایک دکان تھی،جہاں ضرورت کاسامان مل جاتاتھا۔نوجوان اس دکان سے گھر کے لیے سوداسلف لینے کتے کے ساتھ اس کی دکان پراکثرجایاکرتاتھا۔ایک سال خداکاکرناایسا ہواکہ بارش نہ ہوئی۔ظاہرہے کہ بارش نہ ہونے کے باعث فصل نہ ہوسکی۔
نوجوان نے دکان دارسے کہاکہ ایک سال تک اسے اُدھارسامان دیاجائے۔کچھ سوچ کردکان دارنے کہاکہ وہ اپنا کتاقرض کی ادائی تک یہاں ضمانت کے طور پر چھوڑجائے۔غریب اور مجبور نوجوان کوایسا ہی کرناپڑا۔اپنے کتے سے جدا ہونے کااسے بہت افسوس تھا۔
وہ زمین پربیٹھ گیا۔اس نے کتے کے کان میں کہا:اپنے نئے مالک سے وفادار رہنا۔ جب تک میں قرض ادانہ کروں،واپس ہرگزنہ آنا۔
معصوم جانورکی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔وہ اپنے مالک کادکھ شدت سے محسوس کررہاتھا اور اپنے آپ کونئے مالک کے ساتھ عارضی طور پررہنے کوتیارکررہاتھا۔
نوجوان اپنے وفادار کتے کودکان دار کے حوالے کرکے اپنے گاؤں چلاگیا۔
دکان دار نے کتے کے گلے میں زنجیرڈالی اور اسے اپنے گھرلے آیا۔بے چارے کتے نے پہلے تو کبھی زنجیردیکھی ہی نہیں تھی۔اسے عجیب سالگ رہاتھا،پھربھی اسے اپنے نئے مالک کے ساتھ وفاداری کرنی ہی تھی۔
دن گزرتے گئے۔بروہی نوجوان نے اپنے کھیتوں کوبڑی محنت سے تیارکیا۔اسے انتظار تھاکہ بارش ہواور فصل اچھی ہو جائے، تاکہ وہ قرض اُتارکراپنے کتے کوواپس گھرلے آئے۔
ایک رات دکان دارکے گھرمیں چورگھس آئے۔چوردکاندار کی پوری نقدی،زیورات اور دوسرا قیمتی سامان چراکرلے گئے۔
کتا زنجیرمیں بندھا ہواتھا۔لہٰذامجبور تھا۔وہ زورزورسے بھونکنے لگا۔دکان دار جاگ اُٹھا۔اسے محسوس ہواکہ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ اسے نے فوراََ کتے کوزنجیرسے آزاد کردیا۔کتا چوروں کے پیچھے دوڑا۔چور گاؤں کے باہرندی کے کنارے پہنچ گئے تھے۔
کتے نے ان کوگھیرلیا۔دکان دار بھی پیچھے پیچھے چلاآیا۔اس کے ساتھ ہی گاؤں کے بہت سارے لوگ بھی لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر وہاں آگئے۔اس طرح چوروہیں سامان چھوڑ کربھاگ گئے۔دکان دار کتے کے اس کارنامے پربے حدخوش ہوا اور کتے کوآزاد کرنے اور اپنے اصل مالک کے پاس واپس بھیجنے کاارادہ کرلیا۔
تمھارے وفادار کتے نے مجھے بے حدخوش کردیاہے۔اس نے میری قیمتی چیزیں،نقدی اور سازو سامان چوری ہونے سے بچالیاہے۔میرے خیال میں تمھارے کتے نے تمھاراقرض چکادیا۔اب تم میرے قرض دارنہیں ہو۔تمھارے کتے کوآزاد کرکے تمھارے پاس واپس بھیج رہاہوں۔
دوسرے دن دکان دار نے کتے کے گلے میں یہ پرچی ڈالی اور زنجیر کھول کرکتے کواپنے پرانے مالک کے گھرجانے کاحکم دے دیا۔
کتے نے خوشی خوشی اپنے پرانے مالک کے گھرکی طرف دوڑناشروع کیا۔وہ پہاڑی رکاوٹوں کو پھلانگتا ہواآگے بڑھ رہا تھا۔
اچانک اس کی نظر اپنے پرانے بروہی مالک پرپڑی۔اب کی باربارش خوب ہوئی توفصل بھی اچھی ہوئی۔بروہی نوجوان نے اناج بیچ کرقرض کے پیسے دینے کاانتظام کرلیا تھا۔وہ دکان دارکی طرف ہی آرہاتھا۔دونوں کا آمنا سامنا ہوا۔ کتاخوشی سے دُم ہلانے لگا،لیکن دونوں کے جذبات واحساسات ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔
ایک بے حدخوش تھا تودوسرا اس کے برعکس دکھ اور غصے میں تھا۔کتے نے سوچا کہ اس کاپرانا مالک اس کی بہادری پر بہت خوش ہوگا اور اسے پیار کرے گا،جب کہ بروہی نوجوان سمجھ رہاتھا کہ یہ دکان دارکے ہاں سے بھاگ آیاہے اور اس کے لیے شرمندگی اور ذلت کاباعث بناہے۔
بے شرم کتے! تم نے میری بے عزتی کرادی۔تم نالائق اور نمک حرام ہو۔
کتابے چارہ اپنے مالک کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا،لیکن مالک نے اس پرکوئی توجہ نہ دی۔اتنے قابل فخراور وفادار جانور کے لیے یہ سب کچھ برداشت سے باہر تھا۔
اسے یقین ہوچلاکہ اس کوپرانا مالک قبول نہیں کرے گا،لہٰذا وہ غم کی شدت سے وہیں ڈھلوانی راستے پرگرگیااور دم توڑدیا۔
نوجوان جب دکان دارکے پاس قرضہ واپس کرنے پہنچا تواسے حقیقت کاعلم ہوا۔دکان دارنے اسے بتایاکہ اس نے کتے کے گلے میں کتے کی رہائی اور قرض کی معافی کاپرچالکھ کرباندھ دیاتھا۔
دکھ، اُداسی اور پچھتاوے کابوجھ لیے نوجوان وہاں سے روانہ ہوا۔ہلکی ہلکی بارش تھی،لیکن اس نوجوان کے دل میں تودکھ اور پشیمانی کی تپش تھی۔اس نے اپنے مرے ہوئے محبوب کتے کوبوری میں ڈالااور ڈاڑھیارو پہاڑ کی چوٹی پر قبرکھود کراسے دفنادیا۔آج بھی اس وفادار اور قابل فخرکتے کی قبر اس پہاڑ کی چوٹی پرموجود ہے،جہاں سال کے بارہ ماہ زبردست ٹھنڈرہتی ہے۔
صدیاں بیت گئیں ہیں،لیکن سندھ کے لوگ وفادار کتے کی کہانی کونہیں بھولے۔
بھالو اور اس کی دم
ایک پجاری پڑوس کے گاوٴں میں ایک امیر آدمی کے یہاں سے جنگل کے راستے اپنے گاوٴں کی طرف لوٹ رہا تھا۔ وہ امیر آدمی بڑا سخی تھا ، وہ فقیروں اور پجاریوں کی بہت عزت کرتا تھا اور ان کو اشرفیوں اور قیمتی تحفے تحائف سے نوازتا تھا۔
اس امیر آدمی نے پجاری کو بھی ڈھیر ساری سونے کی اشرفیاں تحفے کے طور پر دی تھیں۔ اتنے سارے سونے کے سکے پاکر پجاری بہت خوش ہوا۔ خوشی کے مارے وہ گنگناتے ہوئے جلدی جلدی چل رہا تھا تاکہ جنگل کا خطرناک راستہ کم وقت میں پار کرسکے۔
اپنی دھن میں مگن پجاری کو اچانک اس وقت شدید جھٹکا لگا جب اس نے اپنے سامنے ایک بھالو کو دیکھا۔ اب پجاری بڑی مشکل میں پھنس گیا تھا۔اسے کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی کہ وہ اب کیا کرے؟ آخر کار وہ پیچھے کی طرف بھاگنے لگا جب بھالو نے اس کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔
دوڑتے دوڑتے پجاری بری طرح تھک گیا اس کا پاوٴں کانپنے لگا۔پجاری تھکن کے مارے ایک جگہ کھڑا ہوگیا بھالو بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔ اب دونوں آمنے سامنے تھے۔ پجاری سوچ میں پڑ گیاکہ اگر اپنی جان بچانی ہے تو اسے بھالو سے لڑنا پڑے گا ۔
یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بھالو پجاری کے اوپر کود گیا۔ پجاری بھی اس سے دو بہ دو لڑنے کے لیے بالکل تیار ہوگیا، لڑتے لڑتے اچانک پجاری کے ہاتھ میں بھالو کی دم آگئی۔ پجاری نے پوری طاقت سے دم کو پکڑ کر گول گول گھمانا شروع کردیا۔ پجاری اور بھالو دونوں گھومتے رہے ایسے میں پجاری کی کمر سے بندھی ہوئی تھیلی میں سے سونے کی اشرفیاں نکل نکل کر چاروں طرف گرنے لگیں۔
پجاری کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی اس لیے اس کو سونے کے سکوں کے اس طرح گرنے کاکوئی افسوس نہیں ہورہا تھا۔ وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کسی طرح چھٹکارا ملے۔ وہ من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے بھالو کی دم کو چھوڑ دیا تو بھالو اس کو جان سے مار ڈالے گا۔
پجاری اسی سوچ میں ڈوبا رہا کہ بھالو کی دم کو پکڑ کر اسی طرح گول گول گھماتے رہنے سے ہی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ کچھ دیر تک یہی حالت رہی کہ ادھر سے ایک لکڑہارے کا گذر ہوا۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے سونے کے سکوں اور گول گول گھومتے ہوئے پجاری اور بھالوکو دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا ۔
دونوں کے قریب آیا اور کھڑے ہوکر ان دونوں کوغور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے پجاری سے پوچھا :” پجاری جی ! یہ آپ کیا کررہے ہیں اور چاروں طرف سونے کے سکے کیوں بکھرے ہوئے ہیں؟“
پجاری نے لکڑ ہارے کی آواز سن کراس کی طرف دیکھا۔
اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی۔ اس نے اسی طرح گول گول گھومتے ہوئے کہا :
”اے لکڑ ہارے! یہ جو ہر طرف تم سونے کے سکے بکھرے ہوئے دیکھ رہے ہو یہ بھالو کی دم کو پکڑ کر اس طرح گول گول گھمانے سے نکلے ہیں۔“
لکڑ ہارے کے دل میں لالچ آگئی ، اس نے کہا:” آپ کو تو کافی اشرفیاں مل گئی ہیں۔
اب ذرا مجھے بھی بھالو کی دم پکڑا دیجیے ،تاکہ میں بھی اسے گھما کر کچھ سونے کے سکے حاصل کرسکوں۔“
پجاری کچھ دیر تو یوں ہی دکھاوے کے لیے ٹالتا رہا۔ پھر اس نے لکڑ ہارے کو بھالو کی دم پکڑا دی اور سونے کے سکوں کو جلدی جلدی جمع کرکے وہاں سے بھاگ گیا۔
لالچی لکڑا ہاراسونے کے سکوں کے لیے اسی طرح پریشانی کے عالم میں بھالوکی دم پکڑ کر گول گول گھومتا رہا اسے سکے نہ ملنے تھے نہ ملے لیکن ہاں! جب وہ بری طرح تھک گیا تو اس کو لالچ کی سز امل گئی یعنی بھالو نے اسے مار کر کھالیا۔
وہ خوفناک رات
مجھے وقت پر گاؤں پہنچنے کی جلدی تھی، اس لیے میں دوپہر کو ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ میرا ندازہ یہی تھا کہ شام سے پہلے پہلے اپنے گاؤں پہنچ جاؤں مگر، ایک ویران جگہ بس خراب ہوگئی۔ پہلے تو ڈرائیور اور اس کا مدد گار خود ہی بس میں ہونے والی خرابی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر جب ان سے خرابی دورنہ ہوئی تو ڈرائیور نے اپنے مدد گار کو کسی مکینک کوبلانے قریبی قصبے کی طرف بھیجا۔
مکینک کے آنے کے بعد بس کے ٹھیک ہوتے ہوئے شام ہوگئی۔ جب میں اپنی منزل پہ بس سے اتر اتورات کا اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔
گاؤں تک پہنچنے کے لیے مجھے ایک کچے راستے پر چلنا تھا۔ اس راستے پر ابھی مجھے تین کلو میٹر پیدل سفرکرنا تھا۔
میں بڑی سڑک سے اُتر کے گاؤں جانے والے اس راستے پر چل دیا۔
اس وقت آسمان پہ چاند تھا نہ اس کی چاندنی۔ ستاروں کی ٹمٹماتی روشنی نے ماحول کو خوفناک اور پُراسرار بنادیاتھا۔
رات کے سناٹے میں اکیلے سفر کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔
میرا دل زور زور سے دھڑک رہاتھا اور اس خاموشی میں مجھے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ ابھی میں تھوڑا سا راستہ ہی طے کر سکا تھا کہ اچانک ایک الونے میرے سر کے عین اوپر رات کے سناٹے میں اور پر پھڑپھڑا تاہوا ایک درخت سے اڑ کر دوسرے درخت پرجابیٹھا۔
رات کے سناٹے میں الو کی خوفناک آواز سے میں بری طرح ڈر گیا اور خوفناک زدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اسی وقت جھاڑیوں میں سرسراہٹ سی ہوئی میں نے چونک کردیکھا۔ اونچی اونچی جھاڑیوں کے پیچھے کوئی کھڑا تھا۔
میں ڈر کر پیچھے ہٹاتو کسی چیز سے ٹکرا گیا۔
ڈر کے مارے میرے منھ سے چیخ نکل گئی۔ مڑکے دیکھا تو درخت تھا۔ میں بدحواسی میں درخت سے ٹکراگیا تھا۔ بھر اس درخت کے پیچھے بھی مجھے ایک ہیولا سانظر آیا۔ میں پیچھے ہٹاتو وہ میری طرف بڑھا۔ میں ڈر کے بھاگا اور بھاگتا ہی چلا گیا۔
میں اندھادھند بھاگ رہاتھ ، مگر اچانک ٹھٹک کررک گیا۔ ایک لمبا تڑنگا بھوت میرا راستہ روکے کھڑا تھا۔ میں ڈر کر پیچھے ہٹا تو جھاڑیوں میں سے کسی نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں چیختا ہوا وہاں سے بھاگا۔ عجیب سرسراہٹیں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔
بھاگتے بھاگتے میری نظراس چڑیل پر پڑ گئی جو بال کھولے درخت سے الٹی لٹکی ہوئی تھی۔ اندھیرے میں اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح لگ رہی تھیں۔ وہ مجھ پر جھپٹی تو میں چیختا ہوا بھاگا اور اسڑک سے کھیتوں میں اتر گیا۔ میں فصلوں اور جھاڑیوں کو پھلانگتا ہوا بھاگا چلا جارہا تھا کہ اچانک میر ے قدموں تلے سے زمین نکل گئی اور میں منھ کے بل ایک جوہڑمیں گرپڑا۔
کیچڑسے بھرے اس جوہڑ سے بڑی مشکل سے باہر نکلا۔ کیچڑاور مٹی کے لیپ سے اب میں خود بھوت لگ رہاتھا۔ سردی سے میری کپکپی چھوٹ گئی تھی۔ اس ڈر سے کہ وہ بلائیں پھر مجھ تک نہ آپہنچیں، میں پھر بھاگنے لگا۔
میں ایک لمبا چکر کاٹ کر گاؤں کے قریب پہنچا تو یہاں بھی ایک مصیبت یری تاک میں تھی۔
گاؤں کے کتے مجھے بھوت سمجھ کر میرے پیچھے پڑگئے۔ اس نئی مصیبت سے ڈرکے میں بھاگا تو گھر کاراستہ بھول گیا۔ بڑی مشکل سے گھر ملاتوکتے بھی میرے تعاب میں وہاں آپہنچے۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ پیٹ ڈالا۔
کون ہے؟ اندر سے آواز آئی۔
جلدی دروازہ کھولو۔ میں نے چلا کرکہا۔ میرے چچازاد بھائی نے دروازہ کھولا، مگر میری صورت دیکھ کر گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ میں جلدی سے اندر داخل ہوگیا، کیوں کہ کتے بری طرح بھونکتے ہوئے مجھ پر جھپٹ رہے تھے۔
کون ہوتم؟ میرے چچازاد بھائی نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔
اتنے میں گھر کے دوسرے لوگ بھی اٹھ کر وہاں آگئے۔وہ بھی مجھے دیکھ کر ڈرگئے مگر جب میں نے اپنانام بتایا تو بڑی مشکل سے انھوں نے مجھے پہچانا۔ چچا جان نے پوچھا: یہ کیاہوا؟
کچھ بلائیں میرے پیچھے لگ گئی تھیں۔ میں نے بتایا۔
کیا․․․․․ سب حیرت سے میرا منھ تکنے لگے۔ میں نے تفصیل سے بتایا تو چچاجان ہنس پڑے اور بولے: وہ بلائیں ولائیں کچھ نہیں تھیں۔ تم اپنے تصورات سے ڈر گئے تھے۔ تم نے اندھیر میں درختوں اور جھاڑیوں کو بھوت اور چڑیلیں سمجھ لیاتھا، البتہ اُلو اصلی تھا۔
جب میرے اوسان ذرا بحال ہوئی تو میں نے سوچا چچا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ میرے تصورات ہی تھے، جواندھیرے میں بھوتوں اور چڑیلوں کاروپ دھار گئے تھے۔ کیوں کہ میں ہروقت بھوتوں اور چڑیلوں کی کہانیاں پڑھتارہتا تھا۔ انہی خیالی بھوتوں اور چڑیلوں نے آج مجھے سچ مچ ڈرا دیا تھا۔
” اف خدایا! تو یہ سب میرے تصور کاکرشمہ تھا“۔میں نے سرتھام کرکہا۔
جواب لا جواب
ایک سرکاری دورے پر سعوری عرب شاہ فیصل (شہید) برطانیہ تشریف لے گے۔ کھانے کی میز پر انتہائی نفیس برتنوں کے ساتھ چمچے اور کانٹے بھی رکھے ہوئے تھے۔ دعوت شروع ہوئی۔سب لوگوں نے چمچے اور کانٹے استعمال کیے لیکن شاہ فیصل نے سنتِ نبوی کے مطابق ہاتھ ہی سے کھانا کھایا۔
کھانا ختم ہوا تو کچھ صحافیوں نے شاہ فیصل سے چمچہ استعمال نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔
شاہ فیصل نے کہا:” میں اس چیز کا استعمال کیوں کروں جو آج میرے منھ میں ہے اور کل کسی منھ میں جائیں گا۔ یہ ہاتھ کی اُنگلیاں تو میری اپنی ہیں۔
یہ تو ہمیشہ میرے ہی منھ میں جائیں گی اس لیے میں اپنے ہاتھ سے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔“
ایک دفعہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب دورے پر آیا۔
وہ وہاں ایک ہفتہ ٹھیرا۔ اس دوران وفد کے ارکان نے سعودی عرب میں امن و امان کی صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا۔
انھوں نے اس چیز کو شدت سے محسوس کیا کہ سعودی عرب میں چوری کرنے والے کے ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ انھیں لگا یہ سزا سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ وفد کو یہ بھی معلوم ہو اکہ دورے جرائم میں مجرموں کو سرِ عام کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔
امریکا میں توا یسی سزاوں کا تصور بھی نہیں تھا۔
وفد کی ملاقات شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاوں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔یہ تو سراسر اانسانی حقوق کے خلاف ہے۔
صحافی کے اس چبھتے سوال سے شاہ فیصل کے چہرے پر کوئی شگن دیکھنے میں نہ آئی ، بلکہ انھوں نے اس صحافی کی بات کو تحمل سے سنا۔جب وہ صحافی اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل چند سیکنڈ خاموش رہے۔ صحافی یہ سمجھا کہ اس نے شاہ فیصل کو لا جواب کر دیا ہے۔
کچھ دیر رُک کر شاہ فیصل بولے، ” کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو بھی ساتھ لے کر آئے ہوئے ہیں؟“ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلائے۔
اس کے بعد شاہ فیصل نے کہا” ابھی آپ کا دورہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی خریداری کریں۔
ان سب زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے اداکروں گا۔ اس کے بعد وہ زیورات پہن کر آپ سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھ نہیں پائے گا۔ دو دن کے بعد آپ کی امریکہ واپسی ہوگی۔
کیا وہ زیورات پہنے ہوئے آپ اور آپ کی خواتین بلاخوف وخطر اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے؟“
جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا ہونقوں کی طرح منھ تکنے لگے۔
شاہ فیصل نے دوبارہ پوچھا تو چند صحافیوں نے کہا” بلا خوف وخطر ائیرپورٹ سے نکل کر گھر پہنچنا تو درکنار ہم ائیرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔
“
شاہ فیصل نے جواب دیا۔” سعودی عرب میں اتنی سخت سزاوں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے۔ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔
قناعت پسندی
پیارے بچو! آپ نے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کانام ضرور سنا ہوگا خلیفہ ہارون الرشید بھیس بدل کر اپنی رعایا کی خبرگیری کیاکرتا تھا۔ ایک بار اس نے دریا کے کنارے ایک شخص کو دیکھا جو جال پھینکے مچھلیاں پکڑ رہا تھا خلیفہ نے اس سے پوچھا کہ کوئی مچھلی پکڑی؟
اس نے کہا۔
ابھی تک کوئی نہیں۔
خلیفہ نے پوچھا۔کوئی اُمید ہے؟
وہ کہنے لگا شام تک تین مچھلیاں پکڑلوں گا۔
وہ کیسے؟ خلیفہ نے حیران ہوکر پوچھا۔ تین ہی کیوں؟
وہ کہنے لگا ۔ برسوں ہوگئے ایسے ہی زندگی گزار رہاہوں۔ قدرت میرے لئے روز تین مچھلیوں کا انتظام کردیتی ہے۔
جونہی تین مچھلیاں پکڑتا ہوں تو جال اٹھائے گھر چلاجاتا ہوں۔
خلیفہ کو اس کی باتوں میں دلچسپی پیداہوگئی تو پوچھا․․․․․․․ تین مچھلیوں کا کیاکرتے ہو۔
اس نے کہا ۔ ایک گھر میں پکا لیتا ہوں باقی دو بیچ کرضروریات زندگی پوری کرتا ہوں۔
خلیفہ نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ مجھے اپنا حصہ دار بنالو۔ ہم اکٹھے یہ کام کرتے ہیں۔ مچھیرے نے کہا۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے جو چاہئے مجھے روز مل جاتا ہے کافی تکرار سے خلیفہ نے اسے راضی کرلیا کہ روزانہ کی تین مچھلیوں میں میرا کوئی حصہ نہ ہوگا اس کے علاوہ جو مچھلیاں پکڑو گئے اس میں میرا چوتھا اور تین حصے تمہارے۔
خلیفہ نے نئے جال اور ضروری سامان کیلئے مچھیرے کو کچھ سکے دئیے۔ اور کہا۔ اگر میں نہ آسکوں تو مجھے بغداد ملنے آجانا۔ میرانام ہارون الرشید ہے۔ اللہ کی قدرت خلیفہ کی پارٹنر شپ کے بعد مچھلیاں بڑھنا شروع ہوگئیں۔ مچھلیاں پکڑنے والا اپنی تین مچھلیاں علیحدہ کرلیتا، بقایا مچھلیاں فروخت کرتااور خلیفہ کا چوتھائی حصہ الگ کرلیتا۔
اس وقت سونے چاندی کے سکوں کا رواج تھا۔ وہ شخص خلیفہ کی اشرفیاں ایک برتن میں جمع کرتا گیا۔ کافی عرصہ گزرگیا تو وہ فکر مند ہوا کہ کیا انسان ہے کہ میرے ساتھ کاروبار کرنے کے بعد پلٹ کرواپس نہیں آیا۔
آخر ایک دن اس نے اشرفیوں کا برتن اٹھایا اور بغداد جاپہنچا۔
لوگوں سے ہارون، الرشید کا پوچھتا ہوا محل تک جا پہنچا۔
سکیورٹی والوں کو ہدایت تھی کہ جوبھی خلیفہ سے ملنا چاہتا اسے ملوایاجاتا تھا ۔ مچھیراتو خلیفہ کی شان وشوکت اور عظیم الشان دربار دیکھ کر حیران ہوگیا۔ خلیفہ نے اسے پہچان لیا۔
محبت سے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کیسے آنا ہوا؟ اس نے جھجھکتے ہوئے بتایا کہ آپ کے حصے کا منافع لیکر آیا ہوں۔ خلیفہ بہت خوش ہوا اس نے اپنا حصہ بھی اسے انعام دیا اس کے ساتھ ساتھ بہت سے تحفے تحائف بھی دیئے اور کہا۔ جب تمہاری بات سنی تو محسوس ہوا کہ قدرت نے تمہاری قسمت میں روز کی تین مچھلیاں لکھی ہیں اور تم قناعت پسند بھی تھے۔
قدرت نے مجھے بے شمار دولت سے نوازا ہے۔ میں نے تیرے ساتھ کاروبار میں قسمت کا اشتراک کیا تھا جو برکت آئی وہ مشترکہ قسمت کا نتیجہ ہے۔
بچو! اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہرکسی کے ساتھ نیکی کرتے رہیں تاکہ ہماری شراکت سے کسی کو بہت سافائدہ ہو۔
انوکھی دریافت
پروفیسر محمد قاور جابر ملک کے مشہور اور مایہ ناز ماہر ارضیات تھے۔ پورا ملک ان کی تلاش کی ہوئی چیزوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ کھدائی کے دوران انھوں نے بہت سی چیزیں دریافت کی تھیں۔ انھوں نے اپنے کارکنوں کے ساتھ ملک کے دور دراز علاقے ” جاڑجا“ میں کھدائی کاکام شروع کیا تھا۔
کچھ دن تو انھیں کچھ نہ ملا۔ پھر اچانک ایک دن ان کے ایک ساتھی نے گول سی ڈبا نماکوئی چیز ان کے سامنے لاکر رکھ دی بظاہر تو یہ پتھر کا لگ رہاتھا، لیکن لوہے جیسے کسی دھات کابنا ہوا تھا۔
اس کارکن نے بتایا: سر! ہم نے مشینوں سے چیک کیاہے۔
اس میں کچھ لوہے کی آمیزش معلوم ہوتی ہے اگر یہ یہاں کے قدیم باشندوں کی کوئی چیزہوئی تو یہ ہماری اب تک سب سے بڑی دریافت ہوگی۔
اچھا! پھر تو بہت ہی زیادہ اچھا ہے۔
اسے جلدی سے صاف کرو اور ہاں، ذرا احتیاط سے پھر فوراََ مجھے دکھاؤ۔
وقار جابرگول سے ڈبے کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے بولے۔
ٹھیک ہے سر! اس نے کہا اور ڈبااُٹھا کر واپس چلا گیا۔ تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے بعد اس نے ایک عجیب سا آلہ ان کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ انھوں نے دیکھا یہ ایک لوہے کا ہلکا ساگول ڈبا تھا۔
اس کے پیندے پر ایک چھوٹا سا سوراخ اور ایک تار اس میں سے ہوتی ہوئی ڈبے کے اندر جارہی تھی۔ یہ ایک عجیب آلہ یا ہتھیار تھا۔ اس کے اوپر ایک عجیب زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا، لیکن کوشش کے باوجودکوئی اسے پڑھ نہ سکا۔
یہ ایک شان داردریافت تھی۔
اخبار”جب تک“ میں سب سے پہلے اس عجیب وغریب دریافت کی خبر شائع ہوئی۔ پھر تو ہر اخبار میں یہ نمایاں طور پر چھینے لگی۔ حکومت نے اس آلے کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور اس کام پر وقار جابرکو ایک بڑے انعام واکرام سے نوازا، لیکن اب تک اس آلے پر موجود تحریر زبانوں کا علم جاننے والے ملک بھر کے ماہرین بھی نہ پڑھ سکے۔
اگر یہ آلہ جاڑ جاکے قدیم لوگوں کوئی چیزہوئی تو یہ جلدہی پوری دنیا میں مشہور ہوجائے گی، کیوں کہ جاڑجا کے قدیم باشندے علم وحکمت کی وجہ سے دنیا میں مشہور تھے۔
اب یہ نسل ختم ہوچکی تھی، لیکن ان کی پرانی چیزوں کے آثار پائے جاتے تھے، جو پوری دنیا میں ہرچیز سے قیمتی سمجھے جاتے تھے۔
اب آلے پر موجودہ تحریر پڑھنے کے لیے دنیا کی قدیم زبانوں کاعلم جاننے والے سب سے بڑے ماہر ” جانسن پڈبیل“ کو سمند پارسے یہ تحریر پڑھنے کے لیے بلایا گیا تھا۔
اس تقریب میں وقار جابر صاحب کے دریافت کردہ آلے پر موجود تحریر کو پڑھا جانا تھا۔
اتنی بڑی تقریب شاید ہی پہلے کبھی ملک میں ہوئی ہو۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی ۔ پورے ملک سے لوگ اس تقریب میں شرکت کے لیے امڈ آئے تھے۔ یہ تقریب حکومت کی طرف سے تھی۔ ایک طرف بہت بڑا اسٹیج تھا۔
سب سے پہلے ملک کے ایک بڑے صوبے کے گورنر نے آکر پروفیسر وقار جابر کی تعریف میں زمین وآسمان ایک کردیے۔
پھر کئی اور دانش وروں کی علم دانش سے بھری تقریروں کے بعد ” جانسن پڈبیل“ کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ وہ اسٹیج پر آئے پہلے تو انھوں نے اپنے کام کے بارے میں کچھ باتیں کیں پھر ایک طرف رکھے ہوئے آلے کو اٹھا کر اُلٹ پلٹ کردیکھا۔
کچھ دیر غور کرنے کے بعد اس پر موجود تحریر کو پڑھنا شروع کیا۔ جانسن پڈبیل نے تحریر پڑھتے ہوئے بتایا: اسے پرلکھا ہے کہ اس خالی ڈبے کو کچرے کی بالٹی میں پھینکیں۔ خود کو اور اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سے ہزاروں سال پہلے بھی یہاں مہذب قومیں آباد تھیں، جنھیں اپنے وطن سے پیار تھا۔
بادشاہ کا انوکھا واقعہ
ایک وقت تھا جب ملک کے بادشاہ کے اندر عبادت، پرہیز گاری اور دینی سمجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں آدمی ان واقعات کو سنے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔
جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا، ایک بڑے میدان میں لایا گیا۔ بے پناہ لوگ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حد نگاہ تک نظر آتا تھا۔
جب نمازجنازہ پڑھنے کا وقت آیا، ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کا وکیل ہوں۔ حضرت نے ایک وصیت کی تھی۔ میں اس مجمعے تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمعے پر سناٹا چھاگیا۔ وکیل نے پکار کر کہا۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔
#زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
#اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
#اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔
#اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔
جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات سنائی گئی تو مجمعے پر ایسا سناٹا چھایا کہ جیسے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ کافی دیر گزر گئی، کوئی نہ آگے بڑھا۔
آخر کار ایک شخص روتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آئے۔ جنازہ سے چادر اٹھائی اور کہا۔ حضرت! آپ خود تو فوت ہوگئے مگر میرا راز فاش کردیا۔
اس کے بعد بھرے مجمعے کے سامنے قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ یہ شخص وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھے۔
انوکھی شادی
پانچ دوست سعد، طلحہ سعید، عبدالمعیز، عبدالرافع اور فیضان رشید ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اور ہمیشہ اکٹھے ہی کھیلتے تھے ۔ طلحہ اور سعید کے کسی رشتے دار کی شادی تھی۔ طلحہ نے اپنے رشتے دار سے بغیر پوچھے چاروں دوستوں کو شادی کا رڈ دے دیا۔
چاروں دوست شادی کارڈ لے کر بہت خوش ہوئے اور شادی پر جانے کی تیاری کرنے لگ گئے۔ بالآخر شادی کا دن بھی قریب آپہنچا۔ وہ چاروں دوست شادی پرجانے کے لئے تیاری کی بس پرسوار ہوکر طلحہ کے گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔گاؤں میں اس کے گھر تک پہنچنے کیلئے پیدل جانا پڑتا تھا۔
وہ چاروں دوست اڈے سے اُترجرپیدل گاؤں کی جانب چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس کے گھر پہنچ گئے۔ طلحہ اپنے چاروں دوستوں کو مل کر خوش تو ہوا لیکن تھوڑا پریشان بھی ہوگیا کیونکہ شادی کی تقریب سادگی کے ساتھ ادا کی جانی تھی۔
چاروں دوست طلحہ سے باتیں کرنے لگ گئے طلحہ نے کہا میں کھانا لیکر آتا ہوں۔
آدھا گھنٹہ گزر گیااور طلحہ نہ آیاتو عبدالمعیزکہنے لگایار بھوک سے برا حال ہورہا ہے۔ طلحہ نہیں آیا توسعد کہنے لگا طلحہ آتا ہی ہوگا لیکن آدھا گھنٹہ اور گزرگیا تو وہ پریشان ہوگئے۔ عبدالرافع کہنے لگایا یار وہ نہیں آتا ہم واپس گھر چلتے ہیں۔
فیضان کہنے لگا ٹھیک ہے۔ وہ چاروں دوست گھر کی طرف جانے کیلئے چل پڑے واپسی پر رات ہوگئی۔ تو وہاں کتا بیٹھا تھا وہ ڈرگئے سعد، عبدالرافع اور عبدالمعیز دوڑنا شروع کردیا۔ اچانک اندھیرے میں پتہ نہ چلا اور سعد اور عبد الرافع کھال میں گرگئے تو کپڑوں کو کیچڑ لگ گیا۔
انہوں نے پانی کے ساتھ کپڑے دھوئے۔ اسی دوران ایک کتا ن کی جانب دوڑتا آرہا تھا۔ ان سب میں فیضان رشید دلیر اور بہادر تھا اس نے اینٹ کا ٹکڑا کتے کو ماراتو کتا بھاگ گیا پھر وہ تھوڑی دیر آگے گئے تو سعد امجد نے کالی چیز دیکھی تو ڈر گیا لیکن فیضان نے اینٹ کا ٹکڑا اس کی طرف پھینکا تو ہنسنے لگ گیا۔
فیضان کہنے لگایا ر یہ توگدھا تھا جو گھاس کھارہا تھا۔ یہ دیکھ کر عبدالرافع کہنے لگا۔ گدھے تم کسی کے کام آتے ہو بھی کہ نہیں بس صرف گھاس ہی کھاتے رہتے ہو۔ عبدالمعیز کہنے لگا اوئے گدھے ہمیں اڈے تک چھوڑآؤ عبدالرافع کہنے لگا ہم چاروں گدھے پر کیسے بیٹھیں گے فیضان رشید نے گدھے کے گلے میں رسی دیکھی جولٹک رہی تھی ۔
فیضان نے کہا وہ دیکھو رسی لٹک رہی ہے۔ فیضان نے گدھے کی رسی پکڑ لی عبدالرافع ، سعدامجد اور عبدالمعیز گدھے پر بیٹھے گے۔ اورگدھے نے چلنا شروع کردیا تھوڑی دیر اڈا آگیا اڈے سے انہوں نے رکشہ لیا اور کچھ کھائے پیے بغیر گھر پہنچ گئے ۔
والدہ کا پرس
ایک بار ایک عزیز کی شادی کے سلسلے میں والدہ صاحبہ کو لے کر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ہمارے ایک قریبی عزیز ملنے آئے ۔ انھوں نے والدہ کو ایک بڑی رقم دی اور کہا کہ یہ امانت ہے اور جب مجھے ضرورت ہوگی ، میں لے لوں گا ۔
جب تقریب ختم ہوئی اور ہم واپسی کے لیے کار پارکنگ میں آئے تو والدہ صاحبہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اوڑھنے کے لیے برقع درست کرنے لگیں اور اپنا پرس جس میں کافی رقم تھی ، قریبی کھڑے ایک اسکوٹر کی سیٹ پر رکھ دیا۔ برقع ٹھیک کرنے کے بعد انھیں پرس اٹھانا یاد نہ رہا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
جب آدھا راستہ طے ہوگیا تو میں نے ایک جگہ پیٹرول بھروانے کے لیے گاڑی روکی ۔ پیٹرول ڈلوایا تو میں نے والدہ صاحبہ سے کہا کہ آپ اپنے پرس میں سے کچھ پیسے دے دیں ۔
اس پر انھیں یاد آیا کہ وہ اپنا پرس بھول آئی ہیں ، جہاں انھوں نے برقع درست کیا تھا ۔
میں نے پریشانی سے کہا : اس میں تو کافی رقم تھی ، اب وہ پر س کہاں ملے گا ۔
وہ کہنے لگیں : مجھے اللہ کی ذات پر اُمید ہے کہ وہ پرس کہیں نہیں جائے گا ۔
جب ہم آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچے تو دیکھا کہ پرس اس جگہ اسکوٹر سیٹ پر رکھا ہوا تھا اور رقم بھی پوری تھی ، حالانکہ اس دوران بے شمار لوگ کار پارکنگ میں آئے ہوں گے لیکن کسی کی پرس پر نظر نہیں پڑی ۔ اسے والدہ صاحبہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی سمجھ لیں ۔
حسین شہزادی
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ملک یمن پر ایک نیک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ اپنی رعایا کے ساتھ بہت نیک سلوک کرتا تھا، اس کی چار بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک شہزادی بہت حسین تھی، جس کی خوبصورتی پر باقی شہزادیاں نفرت کرتی تھیں۔
اس شہزادی کا نام شہزادی سوہانہ تھا۔ ایک دفعہ ان کا باپ کسی کام کی غرض سے بیرون ملک گیا، اس نے اپنی ساری بیٹیوں سے ان کی خواہشات پوچھیں۔ ان تین بہنوں نے قیمتی زیورات لانے کو کہا جب بادشاہ نے چوتھی بیٹی سے پوچھا کہ اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دو ۔
شہزادی سوہانہ نے کہا مجھے ایک گلاب کا پھول چاہئے ان کا باپ کوئی نہ کوئی بات بھول جاتا تھا اس لئے صرف شہزادی سوہانہ کے لئے پھول لے آیا، باقی چیزیں وہ بھول چکا تھا۔ جب وہ گھر آیا تو شہزادیاں دروازے پر کھڑی اپنے باپ کا انتظار کر رہی تھیں، جب ان کا باپ آیا تو صرف ایک پھول کے علاوہ اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔
شہزادیوں نے اپنے باپ کو برا بھلا کہہ کر باپ کی نافرمانی کی۔ شہزادی سوہانہ کمرے میں جا کر رونے لگی۔ اس کا باپ کمرے میں آیا اس کا پھول اسے دے دیا۔ بادشاہ نے کہا۔ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز والدین کی خدمت ہے ۔ چنانچہ جب بادشاہ دوسری مرتبہ بیرون ملک گیا تو سب نے اپنی اپنی چیزیں لانے کے لئے کہا مگر شہزادی سوہانہ اس پر خاموش رہی، اس نے سوچا کہ اس بار کوئی ایسی بات نہ ہو کہ جس سے میرے باپ کا دل دکھے تو بادشاہ نے اپنی بیٹیوں کے لئے زیورات لئے ۔
راستے میں ایک جنگل تھا، بادشاہ اس جنگل میں سے گزر رہا تھا تو اس نے درخت پر بیٹھے ایک چمگادڑ کو دیکھا۔ وہ چمگادڑ اصل میں ایک خوفناک جن تھا۔ اس نے بادشاہ کو قید کر لیا۔ ایک شہزادہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، اس نے اپنی تیز دھار تلوار نکالی اور چمگادڑ کی گردن پر دے ماری، چمگادڑ اسی وقت مر گیا۔
شہزادہ ، بادشاہ کو محل لے گیا اور ان کی بیٹیوں کو سارا ماجرہ سنا دیا۔ شہزادیاں اپنے باپ کے پاس آئیں اور اپنے باپ سے نافرمانی پر معافی مانگی۔ بادشاہ نے اس وقت اپنی ساری بیٹیوں میں سے سوہانہ پر فخر
محسوس کیا اور اپنی ساری بیٹیوں کو گلے لگا لیا، سب ہنسی خوشی رہنے لگے ۔
دیکھا بچو․․․․․․! مل جل کر رہنے سے برکت ہوتی ہے ہمیں بھی چاہئے کہ شہزادی سوہانہ کی طرح اپنے والدین کی خدمت کریں اور ایسی بات زبان پر نہ لائیں جس سے والدین کا دل دکھے۔
شکر گزار
”احدعبداللہ․․․․!“ سکول گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے جیسے ہی میرا نام پکارا میں نے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایااور باہر کی طرف بھاگا۔”بابا․․․․ آج پھر اتنی دیر لگا دی“۔میں کب سے انتظار کررہا تھا‘دیکھیں کتنی گرمی ہے“
بابا نے میری بات پر مسکراکردیکھا اور بولے۔
” صاحب بہادر آپ بائیک پر تو بیٹھیں پھر بتاتا ہوں کیوں دیر ہوئی“۔میں نے سکول کیپ درست کی اوربابا کے پیچھے بیٹھ گیا۔اسی وقت میری نظرآگے جاتی سفید مرسڈیز پر پڑی جس میں میرا ہم جماعت علی بیٹھاتھا۔
”بابا ایک بات پوچھوں؟“۔
میرے ذہن میں کلبلاتے سوال کاجواب ضروری تھا۔”جی بیٹا․․․․․ضرور پوچھیں!“۔بابا نے نے ہجوم روڈ سے نکلتے ہوئے کہا۔
”بابا! علی کے پاپا کے پاس تو مرسڈیز ہے وہ روز اے سی والی کار میں آتا جاتا ہے اور آپ کے پاس یہ پرانی بائیک جس پر اتنی گرمی لگتی ہے۔
اوپر سے اس کی آواز‘مجھے ذرااچھی نہیں لگتی“۔میں نے براسا منہ بناکر بائیک کی طرف دیکھا۔
”تو بیٹا․․․․ بائیک بھی تو ایک سواری ہے۔اس میں ایسی کیا خامی ہے؟کم از کم آپ پیدل تو گھر سے سکول نہیں آتے نا؟۔بابا نے نرم لہجے میں مجھے سمجھایا۔
”لیکن اس میں اے سی تو نہیں نا“ میں بضد تھا۔
”بیٹا یہ تو خدا کی تقسیم ہے وہ جس کو چاہے جتنادے‘ہمیں ہر حال میں اس کا شکر گزار رہنا چاہیے“ بابانے جواب دیا۔
”تو بابا اللہ تعالیٰ ہمیں مرسڈیز کیوں نہیں دیتا؟ہماراگھر ساتھ والے انکل کے گھر جتنا بڑا کیوں نہیں؟۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز دوسروں کو کیوں دیتے ہیں؟۔مجھے ہر سوال کا جواب درکار تھا۔میں مزید بھی پوچھتا لیکن اچانک موٹر سائیکل رک گیا۔
”نیچے اترو․․․․!“ بابا نے مجھے کہا۔میں نے حیرانی سے آس پاس دیکھاجہاں کچھ فاصلے پر نئی سڑک بن رہی تھی۔
”یہاں کیوں اترے بابا؟مجھے تو پہلے اتنی پیاس لگ رہی ہے اوپر سے اتنی دھوپ“
بابا مجھے لے کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے۔
”احد بیٹا! آپ سامنے ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جو سڑک بنارہے ہیں۔ان کے ساتھ خواتین بھی ہیں اور بچے بھی۔
وہ سب اس گرمی میں بغیر اے سی کے کام کررہے ہیں۔ان کے پاس تو ایسا گھر بھی نہیں جیسا ہماراہے“۔
میری نظر ساتھ بنی جھگیوں پر گئی‘بابا نے اپنی بات جاری رکھی۔
”احد بیٹا! کیا ان بچوں کا دل نہیں کرتاکہ وہ بھی سکول جائیں؟۔
لیکن ان کے ماں باپ مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس تو اتنا سرمایہ نہیں۔لہذا زندہ رہنے کے لئے وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ مزدوری پر لگادیتے ہیں۔آپ اگر اپنے سے اوپر لوگوں پر نگاہ ڈالو گے تو اپنا آپ ہمیشہ چھوٹا لگے گا لیکن اپنے سے نیچے دیکھو تو اپنا آپ بہت بلند نظر آئے گا۔
اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل بنایا‘گھردیا۔اچھا کھانا پینا دیا تو اس پر شکرادا کرو‘نہ کہ خدا کی تقسیم پر ناشکری کرو۔یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آج ان بچوں کی جگہ آپ ہوتے پھر؟“۔بابا نے تفصیل سے سمجھایا۔
میں نے فوراََ دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی سوچ پر معافی مانگی۔
واقعی اس ذات کی تقسیم میں مصلحت ہوتی ہے۔میری جھکی نظروں سے بابا کو یقین ہوگیا کہ انہوں نے میرے تمام سوالات کا جواب دے دیا ہے۔
”بس بیٹا․․․․!ہر حال میں شکر ادا کرتے رہو کیونکہ ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہیں‘دنیا کی نظر میں ان کے پاس کچھ نہیں مگر آخرت میں ان کے صبر پر انہیں بلنددرجات دئیے جائیں گے۔
جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔“ بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور واپسی کے لئے چل پڑے۔
میرا دل ابھی تک اللہ تعالیٰ کا شکرادا کررہا تھا۔
0 Response to "بیس کہانیاں"
Post a Comment