
دس کہانیاں
گڑیا کا گڈو۔
میں آپ کو بتاتی ہوں گڈو میرا دوست کیسے بنا ایک دن اماں نے مجھے سبزی لانے کے لیے بھیجا گڈو اپنے گھر کے باہر ٹافیاں بیچ رہا تھا مجھے ٹافی کھانی تھی میں نے گڈو سے کہا مجھے ٹافی دیدو میں کل پیسے دیدونگی اس نے مجھے ٹافی دے دی اور پیسے بھی نہیں لیے پھر ہم دونوں دوست بن گئے
میرا نام گڑیا ہے اور میں اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں بیٹھی ہوئی ہوں سناٹا ہے، زمین بھی ٹھنڈی ہے ۔میری اماں پریشان ہوگی میں گھر نہیں گئی مگر کوئی بات نہیں صبح چلی جاؤنگی اماں مارے گی مار کھالونگی۔مگر گڈو اسے کیسے چھوڑ کر چلی جاؤں مگر آپ کو کیا پتا گڈو کون ہے؟ میں آپ کو بتاتی ہوں گڈو کون ہے؟ گڈو میرا دوست ،ہم راز ہے سب کچھ ہے وہ مجھے بھٹہ لاکر دیتا تھا، قلفی کھلاتا تھا،ڈھیر ساری باتیں کرتا تھا۔
میں آپ کو بتاتی ہوں گڈو میرا دوست کیسے بنا ایک دن اماں نے مجھے سبزی لانے کے لیے بھیجا گڈو اپنے گھر کے باہر ٹافیاں بیچ رہا تھا مجھے ٹافی کھانی تھی میں نے گڈو سے کہا مجھے ٹافی دیدو میں کل پیسے دیدونگی اس نے مجھے ٹافی دے دی اور پیسے بھی نہیں لیے پھر ہم دونوں دوست بن گئے۔
مگر ہمارا علاقہ بہت گندا ہے وہاں جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر ہے۔
ہم دونوں پھاٹک کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے تھے گڈو پیسے گنتا تھا اور میں اس سے با تیں کرتی تھی۔ ایک دن ہم دونوں گھر واپس آرہے تھے راستے میں کچرا تھا میں اور گڈو کچرے میں سے بچ کر چل رہے تھے مگر پھر بھی پتا نہیں کیسے گڈو کے پاؤں میں کچرے میں سے کچھ چبھ گیا اور وہ لنگڑا کر چلنے لگا اس کے پاؤں میں سے خون رسنے لگا وہ میں نے اپنے دوپٹے سے صاف کردیا مگر گڈو پھر بیمار رہنے لگا ڈاکٹر کہتے ہیں اسے ایڈز ہے وہ مرجائے گا ۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے گڈو مرجائے۔میں ٹھنڈے فرش پر بیٹھ کر دعا کر رہی ہوں میری دعا قبول ہوگی گڈو نہیں مرے گا۔۔پیارے بچو! آپ بھی کہے نہ گڑیا کا گڈو زندہ رہے گا اسے کچھ نہیں ہوگا۔ہاں ! شاید گڈو زندہ رہے ۔
خود پے بھروسہ
کسی باغ کے ایک گھنے درخت پر ایک فاختہ نے اپنا گھونسلہ بنایا ہوا تھا جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی اور اُن کو دانہ دنکا بھی چگاتی تھی ۔ وہ بہت خوش تھی کیونکہ اب اُن بچوں کے بال وپر بھی نکلنے لگے تھے۔
ایک روز فاختہ کو اُسکے بچوں نے بڑی پریشانی کے عالم میں یہ بتایا؛ ” ماں ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارا گھونسلہ برباد ہونے والا ہے ، آج اس باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں آیا تھا او ر اُس سے کہہ رہا تھا کہ اب پھل توڑنے کا زمانہ آگیا ہے ، کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور اُن کی مدد سے اِس درخت کے پھل توڑوں گا۔
میرے بازو میں تکلیف ہے اسلئے یہ کام تنہا نہیں کرسکتا، مجھے اپنے دوستوں کی مدد کی ضرورت ہوگی“ یہ سُن کو فاختہ نے بچوں کو تسلی دیت ہوئے کہا؛ ”فکر مت کرو وہ کل اپنے دوست کے ساتھ نہ یہاں آئے گا اور نہ ہی پھل توڑے گا۔
“ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا باغ کا مالک نہ خود آیا اور نہ اُسکا دوست وہاں پہنچا۔
اسی طرح کئی روز گزر گئے تو ایک روزوہ پھر باغ میں آیا۔ اُس وقت بھی فاختہ اپنے بچوں کے پاس نہیں تھی۔ اُس نے درخت کے نیچے کھڑے ہوکر کہا”میرے دوستوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ، اسلئے میں یہاں سے پھل نہیں توڑسکا مگر کل میں یہ کام ضرور کرڈالوں گا کیونکہ اس بارانہوں نے آنے کا پکا وعدہ کیا ہے“ جب فاختہ واپس لوٹی تو اُسکے بچوں نے یہ بات فاختہ کو بتائی تو اس نے بے پرواہی سے کہا” بچو تم پریشان نہ ہو کیونکہ اس بات بھی نہ وہ خود آئے گا اور نہ اُسکے دوست آئیں گے“غرض اِسی طرح یہ دن بھی گزر گیا اور فاختہ کے کہنے کے مطابق نہ باغ کا مالک وہاں آیا اور نہ ہی اُسکا کوئی دوست۔
فاختہ کے بچے اب کچھ زیادہ ہی مطمئن ہوگئے تھے۔ چند روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور درخت کے نیچے کھڑے ہوکر بال ؛ ”میرے دوست صرف نام کے دوست ہیں ، انہیں مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ابھی تک کئی بار وعدے کرکے ٹال گئے لیکن اب مجھے اُن کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
میں خود ہی کل تم سب کے ساتھ مل کر اس درخت کے پھل توڑوں گا۔ ویسے بھی مجھے دوسروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے آپ پر بھروسہ کرنا چاہیے، اسی میں بہتری ہے“ جب فاختہ نے یہ بات سنی تو وہ پریشانی کے عالم میں بولی” بچواب ہمیں فوری طور پر یہاں سے جانا ہوگا۔
جب تک باغ کا مالک دوسروں پر بھروسہ کر رہا تھا ،اُسکا کام نہیں ہورہا تھا مگر آج اُس نے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے خود ہی پھل توڑنے کا ارادہ کیا ہے تو وہ ضرور کامیاب ہوجائے گا، اسلئے اب ہمیں یہاں سے جانا ہی ہوگا، پھر وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر وہاں سے پرواز کرگئی۔
حقیقی اڑان
آج اسکول سے چھٹی تھی۔ شایان حیدر اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہا تھا۔ ایسے میں اس نے ایک آواز سنی۔ ”کائیں․․․․․ کائیں․․․․․ ۔“ شایان حیدر نے سر اٹھا کردیکھا۔ وہ ایک کوا تھا۔
جو منڈیر پر بیٹھا پھدک رہا تھا۔ پھر اس نے پرواز بھری․․․․ اور یہ جا ․․․․وہ جا۔ شایان کھیلنا بھول گیا۔ ایک وہ کوے اور اس کی پرواز پر غور کررہا تھا۔ شایان عمر کے اس دور میں تھا، جہاں نظر آنے والی چیزیں سمجھ میں نہیں آتی۔
کوا اڑ سکتا ہے، میں کیوں نہیں اڑ سکتا؟“ شایان نے سوچا پھر اس نے اپنے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ کوے کے پاس پرتھے، اس کے پاس تو پھر بھی نہیں تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اڑ نہیں سکتا۔ مگر اب وہ اڑنا چاہتا تھا۔ یہ ننھی سی خواہش اس کے دل میں مچلنے لگی۔
وہ فوراََ ابوجی کے پاس چلا آیا۔ اس کی سوچ کے مطابق ابو اس کی مناسب رہنمائی کرسکتے تھے۔”ابو جی! مجھے اس کوے کی طرح اڑنا ہے۔“ شایان نے اڑتے ہوئے کوے کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی بات سن کر ابو ہنس پڑے۔ بیٹا!ابھی تم چھوٹے ہومگر پھر بھی میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
” ہمارا خالق اللہ ہے۔ مخلوقات کی جسمانی ساخت کے مطابق اللہ نے انہیں صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ پرندوں کے اڑنے کی ایک وجہ تو ان کے پر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پرندوں کی ہڈیاں اندر سے خالی ہوتی ہیں۔ ان خالی ہڈیوں میں ہوا بھری ہوتی ہے، جس سے ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے․․․․ یہ سارے عوامل پرندوں کو پرواز کرنے میں مدددیتے ہیں۔
“ شایان کو کسی اور بات کی سمجھ تو نہ آئی مگر خالی ہڈیوں میں ہوا بھرنے والی بات اچھی طرح سمجھ آگئی۔ اب وہ نظر بچا کر گھر سے نکلا۔ کھوکھلی ہڈیاں․․․ ان کے اندر ہوا․․․․وہ انہی نکات پر غور کررہا تھا۔ اب اسے اپنی کامیابی کے امکان نظر آنے لگے تھے۔
وہ اڑ سکتا تھا۔ وہ سیدھا ٹائرسروس کی دکان پر پہنچ گیا۔”انکل جی․․․․ انکل جی․․․ میری نا․․․․ ہڈیوں میں نا․․․․ دس روپے کی ہوا بھر دیں۔“ شایان نے دکان دار سے کہا۔”ہوش میں تو ہو بچے۔“دکان دار حیران رہ گیا۔
”میں اڑنا چاہتا ہوں۔ “ شایان کی بات سن کر دکان دار ہنس پڑا”جاؤ بچے․․․․ مجھے میرا کام کرنے دو۔“ وہ ہنستے ہنستے بولا۔ یہاں سے مایوس ہوکر شایان گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں اس نے غبارے والا دیکھا۔ غبارے والا اپنے ٹھیلے پر کھڑا غبارے بیچ رہاتھا۔
دھاگے سے بندھے غبارے ہوا میں پرواز کررہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر شایان بہت خوش ہوگیا۔ اسے اپنی مشکل کا حل نظر آگیا تھا مگر اسے ایک الجھن نے گھیر لیا۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے وہ غبارے والے کے پاس جا پہنچا۔ ” انکل! ان غباروں میں ایسا کون سا جادو ہے جس سے یہ اوپر اڑ رہے ہیں؟“ غبارے والے نے جب شایان کا معصومانہ سوال سنا تو ہنستے ہوئے بولا۔
” بیٹا! میں ان غباروں کے اندر ہیلیم گیس بھر رہا ہوں۔ ہیلیم گیس چوں کہ ہوا سے ہلکی ہوتی ہے اس لیے ہوا ان ہیلیم گیس سے بھرے غباروں کو اوپر کو پرواز کررہے ہیں۔“ شایان کا چہرہ کھل اٹھا کیوں کہ اس کی الجھن دور ہوچکی تھی۔
شایان نے دس روپے کا ایک غبارہ خریدا اور پھر ایک پارک میں آگیا۔ اب اس غبارے کا سہارا لے کر وہ لگا اچھلنے کودنے․․․․ مگر شایان کو متوقع کامیابی نہیں مل رہی تھی۔پارک میں ایک بزرگ آدمی کافی دیر سے شایان کی حرکتوں پر غور کررہے تھے۔
جب الجھن حد سے بڑھی تو وہ شایان کے پاس چلے آئے۔ ” کیا بات ہے بیٹا؟“انہوں نے پیار سے پوچھا۔ ”میں اڑنا چاہتا ہوں۔ “ شایان نے الجھن کے عالم میں بھی ہنس پڑے۔ ”کیا آپ میرا مذاق تو نہیں اڑا رہے؟“ شایان نے الجھن کے عالم میں پوچھا۔
”نہیں تو․․․․․ مگر میں تمہاری اس پریشانی کو ضرور دور کرسکتا ہوں۔ “ یہ سن کر شایان بہت خوش ہوگیا۔”کیسے․․․․․؟ اس نے پوچھا۔ ”کیا تم علامہ اقبال کو جانتے ہو؟“بزرگ آدمی نے پوچھا۔ جی ہاں․․․․روز ہم اسکول میں ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری․․․“پڑھتے ہیں۔
“ شایان جوش سے بولا۔ ”شاباش․․․․ انہوں نے کہا ہے کہ ”تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے فشاں ہوجا“’کیا مطلب․․․․! شایان حیرت سے بولا۔ ’مرغ ِحرم سے مراد مردِ مومن ہے ۔ علامہ اقبال مومنوں سے کہناچاہتے ہیں کہ اگر تم حقیقی اڑان بھرنا چاہتے ہوتو پہلے اپنے دل کو ہرقسم کی برائی سے آزاد کردو۔
کیا سمجھے․․․․․“ میں سمجھ گیا بابا جی․․․․․ میں اڑ نہیں سکتا مگر مردِ مومن بن کر حقیقی اڑان ضرور بھر سکتا ہوں۔ “ جوش سے شایان کا چہرہ تمتمانے لگا۔ پھر وہ غبارے کی مدد سے اڑنے کی بجائے، اس سے کھیلنے لگا۔ اسے کھیلتا دیکھ کر وہ بزرگ خوشی سے مسکرارہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کسی بھی قوم کا مستقبل بچے ہوتے ہیں ۔ اس قوم کا مستقبل روشن اور تاب ناک ہے․․․․!
لفافہ
فاطمہ اور ثنا دونوں سہیلیاں ایک ہی سکول میں پڑھتی تھیں۔ دونوں ہی بہت اچھی عادات کی مالک تھیں۔ جب اُنہیں سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم دونوں اکھٹے کسی جگہ گھومنے جائیں گی۔
فاطمہ نے ثناء سے کہا کہ تم میرے گھر آجاؤ پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ ثناء دوپہر کے وقت فاطمہ کے گھر کی طرف چل رہی تھی کہ اُسکے پاؤں کے نیچے ایک لفافہ آگیا۔ اُس نے وہ لفافہ اٹھایا اور فاطمہ کے گھر کی طرف چلتی رہی۔
جب وہ فاطمہ کے گھر پہنچ گئی تو اُس نے وہ لفافہ فاطمہ کو دکھایا۔اُنہوں نے اُسی وقت وہ لفافہ کھولا تو اند ر سے ایک پرچی نکلی۔پرچی کیا تھی ایک گھر کا نقشہ بنا ہوا تھا۔اُنہوں نے فیصلہ کیا ہم اِس گھر میں ضرور جائیں گے۔
اُنہوں نے اپنے سکول بیگ میں سے کتا بیں نکال کر اُس میں دوسرا سامان ڈال دیا اور اُس نقشے کے مطابق گھر کی طرف چل پڑیں۔
چلتے چلتے وہ جنگل کی طرف پہنچ گئے۔ کسی نے اُن سے پوچھا کے بچیو! آپ کہاں جارہی ہو؟ اُنہوں نے نقشہ دکھایا تو وہ بولے اِس جگہ مت جاؤ، یہاں جانا آپ لوگوں کیلئے ٹھیک نہیں ہے ، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ لوگ وہاں سے واپس بھی نہ آسکو۔
فاطمہ اور ثناء نے پوچھا کہ وہاں آخر ایسا کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ وہاں ایک چڑیل رہتی ہے میں نے اُسے دیکھا ہے، وہ جسکو بھی دیکھتی ہے اُسے مارنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں اُس گھر کے باہر رات کے وقت کھڑا تھا تو میں نے اُسے دیکھا تھا۔
دونوں بچییاں اس بات کو مذاق سمجھیں اور آگے بڑھتی رہیں۔ شام کے وقت دونوں لڑکیاں اُس گھر تک پہنچ گئی تھیں مگر وہ بہت تھک چکی تھیں۔ اُنہوں نے ایک کمرے میں داخل ہوکر اپنے بیگ بیڈ پر رکھ دیئے۔ اُس وقت اُس گھر میں اُن کے سوا اور کوئی ہیں تھا۔
اُنہوں نے سب بتیاں بند کردیں اور دونوں سونے کیلئے لیٹ گئیں۔ آدھی رات کو ثناء کی آنکھ کھلی تو اُسے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں۔ اُسے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھی۔ اسے سنائی دے رہا تھا ۔ ثناء نے فاطمہ کو جگایا اور کہا کہ مجھے بہت عجیب وغریب آوازیں آرہی ہیں۔
فاطمہ نے اسے کہا؛ ”خاموشی سے سوجاؤ تمہارا وہم ہے“ اگلی صبح وہ دونوں جنگل میں گھومنے کو نکل گئیں۔ اُنہیں بہت مزا آرہا تھا ۔کھیلتے کھیلتے اچانک ثناء گرگئی اور اُس کے پاؤں سے خون نکلنے لگا۔ فاطمہ اُسے سہارا دے کر گھر تک لے آئی اور کمرے میں بیٹھا کرکہا میں دوسرے کمرے سے پٹی لے کر آتی ہوں۔
فاطمہ دوسرے کمرے میں گئی تو ثناء کو پھر عجیب وغریب آوازیں آنے لگیں۔ اُس نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید یہ بھی میراوہم ہی ہے۔ اس دوران فاطمہ بھی آگئی ۔ فاطمہ نے اُسے پاؤں پر پٹی کی تو رات تک اس کا پاؤں ٹھیک ہو گیا۔ دونوں لڑکیاں سونے کیلئے لیٹ گئیں مگر وہ آدھی رات تک جاگتی رہیں۔
تھوڑی دیر بعد ہی اُنہیں آوازیں آنے لگیں۔ اب وہ دونوں ہی ڈر گئی تھیں۔ انہوں نے بلب جلایا تو وہ ایک دم سے پھٹ گیا۔ بھاگنے کیلئے دروازہ کھولنا چاہا تودروازہ بھی نہیں کھلا۔ اچانک ایک عجیب شکل والی چڑیل اُن کے سامنے آگئی۔اُن دونوں نے زور زور سے چیخنا شروع کردیا۔
گھپ اندھیرے میں اُنہوں نے بری مشکل سے اپنے بیگ ڈھونڈے اور ٹارچ لائٹ نکالی اور وہ لفافہ نکال کردیکھا کہ اس میں ایک اور پرچی ہے جس پر لکھا تھا کہ ”کمرے میں پڑی میز پر ایک بوتل رکھی ہے،اُس بوتل کا پانی چڑیل پر چھڑکنے سے چڑیل مر جائے گی، پھر دونوں لڑکیاں وہ بوتل تلاش کرنے لگیں۔
جلد ہی انہیں وہ بوتل بھی نظر آگئی۔ وہ اس کو پکڑنے ہی والی تھیں کہ چڑیل نے فاطمہ کا دھکا دے کر گرایا۔ فاطمہ بے ہوش ہوگئی اور ثناء کے ہاتھ سے بوتل گر گئی اور گھومتی گھومتی فاطمہ کے پاس پہنچ گئی۔ چڑیل نے ثناء کو دھکا دیا ۔ اتنے میں فاطمہ کی آنکھ کھلی تو اس نے بوتل پکڑلی اور چڑیل کے اوپر چھڑکی تو چڑیل ختم ہوگئی۔
وہ دونوں پھر دروازے کو آرام سے کھول کر باہر نکل گئیں۔ واپسی پر انہیں دہی شخص ملا جس نے انہیں وہاں جانے سے منع کیا تھا۔ دونوں لڑکیوں نے اُس شخص کو تفصیل سے واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ اب چڑیل ختم ہوگئی ہے ، پھر وہ دونوں واپس اپنے گھر چلی گئی۔
نصیحت کا اثر
پیارے بچو! پہلے وقتوں میں کسی کو کوئی بھی حاجت درپیش ہوتی یا کوئی مشکل ہوتی تو وہ حاجب مند کوئی کام کرنے سے پہلے مشورہ لینے کیلئے کسی بزرگ کے پاس ضرور جاتا تھا۔ اِسی طرح ایک غریب اپنی غربت کی شکایت لے کر حضرت شیخ سعدی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میرے بچے زیادہ ہیں اور میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
اب مجھ میں فاقہ کی ہمت نہیں رہی، کئی مرتبہ خیال کرتا ہوں کہ یہاں سے کہیں اور چلا جاؤں مگر یہاں سے چلا گیا تو میرے بعد یہ لوگ مجھ پرطعنہ زنی کریں گے کہ اپنی اولاد کے متعلق یہ کتنا بے مروت نکلا کہ اپنی سہولت اور آرام کیلئے اپنے بیوی بچوں کو تنگدستی میں چھوڑ کر چلا گیاہے۔
آپ ہی کوئی مشورہ دیں آپ تو علمِ حساب کے ماہر ہیں ، مجھے کسی بادشاہ کی نوکری میں دے دیں آپکا احسان ہوگا۔
حضرت شیخ سعدی نے اُس سے کہا کہ بادشاہ کی نوکری کے دورخ ہوتے ہیں اول رزق کی امید اور دوم جان کا خطرہ عقل مندوں کی رائے کے مطابق رزق کی اُمید پر جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔
اُس شخص نے کہا: اے شیخ! یہ میرے سوال کا جواب نہیں ، آپکو میرے دکھوں کا اندازہ نہیں ہے جب میں خیانت نہیں کروں گا تو بادشاہ کیوں مجھ پر غصہ ہوگا تو حضرت شیخ سعدی نے اُسے ایک لومڑی کا قصہ بیان کیا کہ ایک لومڑی کو بھاگتے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا کے تجھے کیا مصیبت آن پڑی کہ تو اتنا دوڑ رہی ہے تو اُس نے کہامیں نے سنا ہے کہ شیر گو بیگار میں پکڑ رہے ہیں ، لوگوں نے کہا کہ تیری شیر سے کیا نسبت؟ لومڑی نے کہا کہ چپ رہو اگر حاسدوں نے دشمنی میں کہہ دیا کہ یہ شیر کا بچہ ہے تو پھر میرا کیا بنے گا اور مجھے کون چھڑائے گا۔
اے دوست بے شک تو دیانتداری کے ساتھ کام کرے مگر اُن حاسدوں کا کیا جو بادشاہ کے سامنے تیری جھوٹی شکایت کریں گے۔ تیرے حق میں کوئی بولنے والا نہ ہوگا لہذا تیرے لئے بہتر ہے کہ تو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر، بادشاہ کی ملازمت کا خیال دل نکال سے۔
شیخ سعدی کی باتیں سن کر وہ شخص غصے میں آگیا، چنانچہ شیخ سعدی نے اُسکو بادشاہ کی نوکری میں دے دیا وہ غریب کچھ عرصہ میں اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت ترقی کرتا ہوا ایک بڑا افسر بن گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بادشاہ کے خاص مقرب بندوں میں شامل ہوگیا۔
پھر کچھ عرصہ بعد شیخ سعدی کچھ دوستوں کے ہمراہ حج کیلئے چلے گئے ، جب حج کی سعادت سے واپس لوٹے تو وہی شخص پھر پھٹے پرانے کپڑوں میں تھا، اُسکی یہ حالت دیکھی تو شیخ نے حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کیا ہوا ہے تو اُس نے کہا کہ آپ کا کہا سچ ثابت ہوا، میرے حاسدوں نے مجھ پر خیانت کا الزام لگایا اور بادشاہ نے صحیح معنوں میں تفتیش نہیں کروائی۔
میرے تمام رفقاء اور دیرینہ ساتھی سب سچ بولنے سے ڈرتے تھے۔لہٰذا خاموش رہے تمام پرانے تعلقات کو نظر انداز کردیا۔ لوگ بڑے آدمی کی تعریف کیلئے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ اگر زمانہ اُس بڑے آدمی کو گرادے تو یہی لوگ اُسے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔
حضرت شیخ سعدی نے اُسے کہا کہ تو نے میرا مشورہ نہ مانا اور میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ بادشاہوں کی نوکری دریا میں رہنے کے مترادف ہے۔ جس میں بڑا خطرہ ہے اور میرے کان میں نصیحت کی بات نہیں پہنچتی تو کیا تو جانتا نہیں کہ میرے پاؤں میں بیڑیاں پڑسکتی ہیں۔
اگر تجھ میں دوسری مرتبہ ڈنگ کھانے کی سکت نہیں ہے تو بچھو کے بل میں کیوں انگلی ڈالتا ہے۔ نصیحت ضرور نفع دیتی ہے، دانا شخص اپنے تجربے اور علم کی بدولت تمہیں کوئی نصیحت کرتا ہے جبکہ بے وقوف شخص اپنی ناتجربہ کاری اور کم علمی کے باعث سراسر نقصان اٹھاتا ہے۔
صحبت کا اثر
ارے بیٹا عثمان!ناصرکے ساتھ نہ کھیلا کرو وہ اچھا لڑکا نہیں سنا ہے وہ چوریاں کرتا ہے اور اسکول جانے کی بجائے آوارہ گردی کرتا ہے اسکا اٹھنا بیٹھنا بھی،،،،ماما جان وہ میرا کلاس فیلو ہے اور سب سے بڑھ کرمیرا کزن ہے اس سے روز ملنا ہوتا ہے اور بیٹا!صحبت کا بہت اثرہوتا ہے کزن ہے تو کیا ہوا وہ برے کے ساتھ برا تھوڑی بنا جاتا ہے اس کی ماما نے کہا۔
ماما جان آپ فکر نہ کریں آپ کا بیٹا ایسا نہیں ہے میں اُسے سمجھاؤں گا،چوریاں کرنا آوارہ گردی کرنا اس کی فطرت بن چکی ہیں تو خاک سمجھائے گا مجھے تو ڈر،،،،ماما جان آپ ٹینشن نہ لیں عثمان یہ کہہ کر گھر سے نکل گیا دونوں کزن ساتویں کلاس میں پڑھتے تھے بریک ٹائم میں جب ریفریشمنٹ کیلئے نکلتے تو سب سے زیادہ ناصر متحرک ہوتا چار پانچ اور بھی اس کے دوست ہوتے وہ کبھی گول گپے،کبھی آلو چنے اور کبھی آئس کریم کھا رہے ہوتے،اُن سب کو ناصر کھلاتا تھا وہ عثمان کو بھی شامل کرتاوہ کبھی ساتھ دیتا اور کبھی اپنی جیب سے نکال کر خرچ کرتا وہ حیران تھا کہ ناصر کے ماں باپ اتنے امیر بھی نہ تھے جو اسے روزانہ پچاس ساٹھ روپے پوکٹ منی دیتے ہوں گے۔
اسے دس روپے روزانہ ملا کرتے تھے اس نے ایک دن ناصر سے پوچھ ہی لیا کہ وہ اتنے پیسے کہاں سے لاتا ہے؟ناصر نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھائی اور کہا اوپر والا دیتا ہے ،وہ تو ٹھیک ہے وہی سب کو دیتا ہے بتاؤ نہ یار عثمان نے پوچھا۔اس نے چٹکی بجائی اور کہا پیارے آم کھا ؤ پیڑ نہ گنو۔
مگر عثمان کا اصرار جاری رہا۔بھائی تم ڈر پوک اور کمزور دل ہوں میرا ساتھ نہیں دے سکو گے۔ناصر نے چالاکی سے کہا۔بھائی میر ا بھی دل کرتا ہے آپ کی طرح خرچ کروں۔بس خواہش کرنے میں کوئی حرج نہیں اس پر کون سا خرچ آتا ہے ناصر نے کہا دیکھو ناصر بھائی پلیز میں تمہارا پارٹنرز بننا چاہتا ہوں اور ڈھیروں روپیہ،،،،،اوکے! سوچ لو پھر نہ کہنا مجھے پارٹنر چاہیے ناصر نے چالاکی سے کہا۔
مجھے منظور ہے عثمان نے کہااگلے دن عثمان مقررہ جگہ پر پہنچ گیا دونوں کا رُخ ایک مرغی خانہ کی طرف تھا ناصر کے پاس ایک تھیلا تھا دونوں چھپتے چھپاتے مرغی خانے پہنچ گئے ناصر ایک ٹوٹی ہوئی جالی سے اندر پہنچ گیا اور کچھ دیر بعد انڈوں سے برا تھیلا لے کر باہر آگیا۔
اُس نے تھیلا اُس جگہ سے عثمان کو پکڑایا اور کہا فوراً اسے ”شیروکریانہ سٹور“ پر لے جاؤ وہ پیسے دے گا وہ لے کر گھر چلے جانا میری اُس سے بات ہوچکی ہے وہ چھپتا چھپاتا کھیتوں سے نکلا اور دکاندار کے پاس پہنچ گیا،جب اس سے پیسے پکڑے تو اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا جونہی پیسے لے کر روانہ ہوا دل نارمل ہوگیا۔
آدھے پون گھنٹے میں انہوں نے دو سو روپے کمالئے تھے،کچھ دیر بعد ناصر بھی پہنچ گیا دونوں بہت خوش تھے،اس طرح چار پانچ چکروں میں عثمان کی جھجک ختم ہوگئی اب وہ خود جالی کے راستے اندر جاتا اور تھیلا بھر کر واپس آتا،اب دونوں بے دھڑک کام سرانجام دینے لگے،کہتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی،ایک دن پولڑی فارم کا مالک آیا اُس نے پولڑی فارم دیکھا مرغیوں کے خوراک والے سٹور اور انڈوں والے سٹور کا وزٹ کیا پھر اپنے کھیتوں اور باغات کی سیر کو نکل گیا،دو گھنٹے بعد واپس آیا تو دیکھا انڈے کم ہیں،اُس نے نوکر سے پوچھا اَن پڑھ نوکر نے کہا جو انڈے ہوتے ہیں وہ ٹرے میں رکھ دیتا ہوں جب شہر سے گاڑی آتی ہیں وہ گن کر لکھ دئیے جاتے ہیں گاڑی تو ابھی نہیں آئی تم نے کس کو دئیے نوکر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
مالک نے کہا مجھے یقین ہے انڈے کم ہیں۔اُس نے اگلے دن نگرانی کا فیصلہ کرلیا۔اگلے دن لگ بھگ اُسی وقت لڑکے ٹوٹی ہوئی جالی سے اندر آئے،دونوں نے تھیلے پکڑ رکھے تھے انہوں نے جلدی جلدی ایک تھیلے میں انڈے ڈالے وہ تھیلا لے کر عثمان باہر نکل گیا ناصر دوسرا تھیلا بھرنے میں مصروف ہوگیا اتنے میں مالک سر پر پہنچ گیا اور ناصر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ابھی عثمان انڈوں کے پیسے لے کر باہر ہی نکل رہا تھا کہ مالک اور ناصر موٹر سائیکل پر پہنچ گئے۔
یوں عثمان بھی پکڑا گیا پہلے تواُس نے دونوں کی خوب مرمت کی پھر تھانے لے گیا اُس نے اُن دونوں کے خلاف چوری کی رپٹ درج کروادی۔گھر والوں نے بھاگ دوڑ کر ہرجانہ ادا کر اور مالک کی منت سماجت کرکے انہیں تھانے سے رہائی دلوائی۔ناصر اور عثمان جہاں سے گزرتے بچے انہیں دیکھ کر”کک کک ککڑوں کوں“کہتے دونوں شرمندہ ہوجاتے عثمان تو بہت شرمندہ ہوتا،اُسے یاد آجاتا کہ اُسکی ماما نے روکا بھی تھا مگر اُس نے اُن کی بات نہیں مانی۔
ہمیں والدین کا کہنا ماننا چاہئے ورنہ عثمان کی طرح پچھتانا پڑے گا۔
خوداری
بھکاری نہیں ہوں محنت کرتا ہوں۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ اماں کہتی ہیں جو سوال کرتا ہے۔ قیامت کے روز اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا
صاحب کھولنے لے لو“۔ بچوں کے لئے پیزا لے کر جیسے ہی عمر پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھا کھولنے بیچنے والا بارہ سے تیرہ سال کی عمر کا لڑکا تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ مگر میرے بچے تو بڑے ہیں وہ ایسے کھلونوں سے نہیں کھیلتے۔
عمر نے معذرت خواہانہ لہجے میں اس لڑکے کو انکار کیا۔ اچھا․․․․ ٹھیک ہے ، آپ نہیں لیں گے تو کوئی اور صاحب اپنے بچوں کے لئے لے جائیں گے۔“ اس کی آنکھوں کی چمک یکدم ماند ہوئی مگر ساتھ ہی خود کو تسلی بھی دی۔ تم پڑھتے نہیں؟“ یکدم عمر کو اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔
صاحب میں پڑھوں گا تو میرے گھر میں چھوٹا بھائی اور بہن جو ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کون پوری کرے گا؟“ وہ افسر دگی سے گویا ہوا۔ میں اور اماں کام کرتے ہیں۔
اماں گھروں میں کام کرتی ہیں ۔ میں دن میں ورکشاپ پر کام کرتا ہوں اور رات کو ادھر کھولنے بیچتا ہوں۔
میرا چھوٹا بھائی اور بہن سکول جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری طرح نہ ہوں پڑھ لکھ کر بہت آگے جائیں ، اسی لیے میں اور اماں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ابا کو پچھلے سال فالج کا اٹیک ہوا تھا تب سے وہ بستر پر ہیں۔“”اچھا یہ رکھ لو“ عمر نے بٹوے سے کچھ روپے نکال کر اسے دینا چاہے۔
بھکاری نہیں ہوں محنت کرتا ہوں۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ اماں کہتی ہیں جو سوال کرتا ہے۔ قیامت کے روز اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں اور قیامت کے دن میرے چہرے پر گوشت نہ ہو“ عمر کی بات سے جیسے اس کی خوداری کو تازیانہ لگا تھا۔
ارے یا تم تو برا مان گئے۔ اچھا یہ بتاؤ ایک کھلونا کتنے کا ہے؟۔سو روپے کا ۔ مگر ابھی تو آپ لینے سے انکار کررہے تھے۔ عمر کو اس کا یہ انداز اچھا لگا۔ یا تمہارے کھلونے بک جائیں اور تمہیں کیا چاہیے؟ یہ سارے دس ہیں صاحب“۔ یہ لو ان سب کے پیسے ۔
ایک کھلوانا مجھ دو میرے گھر کام والی آتی ہے اس کے بیٹے کو دوں گا۔ باقی تم اپنے گھر کے آس پاس کے بچوں میں بانٹ دینا۔ عمر نے اسے اپنا اردہ بتایا۔ وہ لڑکا چلا گیا مگر عمر کو گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیا۔ سوچ کے دریچے کھلتے گئے اُس کے ابو ایک فیکٹری میں ملازم تھے۔
عمر اس وقت آٹھویں جماعت میں تھا جب اس کے ابو کی دونوں ٹانگیں ایک حادثے میں ضائع ہوگئیں۔ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے ابو نے کبھی اس بات کو کمزوری بنا کرکسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ۔ گھر کے دروازے پر بچوں کے کھانے پینے کا سامان رکھ کر بیچنا شروع کردیا۔
امی لوگوں کے کپڑے سینے لگیں۔عمر سکول جانے سے پہلے سائیکل پرلوگوں کے گھروں میں اخبار دیتا ۔ سکول سے واپس آتا تو ٹیوشن پڑھنے والے بچے آجاتے۔ شام کو اپنی پڑھائی کرتا۔ یوں تینوں نے مل کر زندگی کی گاڑی چلانا شروع کردی۔ عمر نے ایم بے اے کرلیا تو اس کو ایک فرم میں نوکری مل گئی۔
امی نے اپنی بھانجی سے اس کی شادی کردی۔ آج اس کے دو بیٹے ہیں۔ جنہیں وہ محنت کرنے کی تلقین کرتا ہے اس کے امی ابو دونوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کا صبر ، لگن اور خودداری آج بھی عمر کے ہم قدم ہے جبھی آج اس لڑکے کو دیکھ کر اسے اچھالگا کہ آج بھی ایسے خوددار لوگ موجود ہیں۔ موبائل پر کال آرہی تھی جو اسے ماضی سے حال میں لے آئی۔ جی میرے بچو! بس آیا ہوں کچھ دیر میں ۔ عمر نے مسکراتے ہوئے بچوں کو کہا اور گاڑی پارکنگ سے نکال لی۔
ایک حکایت،ایک حقیقت
اسلامیات کے استاد کلاس میں داخل ہوئے انہوں نے اپنے ہاتھ میں دبی ہوئی کتاب میز پر رکھی اور چشمے کو درست کرکے ناک پر جمایا اور ہلکے سے کھنکھار کر دسویں کلاس کے طالب علموں سے مخاطب ہوئے:میں تمہیں آج ایک ایسی حکایت سنارہا ہوں جو تمہاری آئندہ ساری زندگی میں کام آتی رہے گی۔
سب طالب علموں میں تجسس پیدا ہوگیا کہ آخر وہ کون سی حکایت ہے جسے ماسٹر صاحب سنائے جارہے ہیں سب طالب علموں توجہ سے ان کی بات سننے لگے۔استاد صاحب نے کہنا شروع کیا ایک بار ایک بدّو حضور ﷺ کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد بولا میں بہت دور سے آیا ہوں بھوکا پیاسا ہوں میرا اونٹ بھی بھوکا ہے۔
آپﷺ نے پوچھا وہ کہاں ہےَ“باہر کھڑا ہے اس نے جواب دیا میں اللہ پر توکل کرکے اسے باہر چھوڑ کر آپ کے پاس آگیا ہوں حضور نے فرمایا تم نے اونٹ کی ٹانگیں باندھیں کہیں دور نہ نکل جائے؟بدّو نے جواب دیا جی نہیں۔
جاؤ اور پہلے جاکر اونٹ کی ٹانگیں باندھو پھر اللہ پر توکل کرو۔
بدّو نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا اور پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔استاد نے تختہ سیاہ کے نزدیک ٹہلتے ہوئے کہا اس چھوٹی سی حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اللہ پر اعتماد اور بھروسا ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم پر جو فرائض عائد کیے گئے ہیں پہلے وہ پورے کرنا چاہیے۔
انہوں نے کچھ وقفے کے بعد کہا اگر کوئی طالب علم صرف دعا مانگتا رہے تو امتحان میں کامیاب نہیں رہ سکتا جب تک وہ کورس کی ساری کتابیں پڑھ کر تیاری نہ کرے،سب طالب علموں کو یہ حکایت پسند آئی وحید نے غالباً یہ واقعہ غور سے نہیں سنا اور اس خیال میں مدہوش رہا کہ اسے رات کو ایک شادی میں جانا ہے اور صبح کرکٹ میچ بھی ہے،اس نے شام کو امی سے پوچھا کہ شادی میں کب چلیں گی؟میری تو طبیعت خراب ہے انہوں نے کم زور لہجے میں کہا تم اور سلمیٰ چلے جاؤ تمہارے ابو کو راتوں کو جاگنا اور دیر سے کھانا، کھانا بالکل پسند نہیں ہے اپنے چچا شا کرکے گھر جانا اور سب مل کروہیں سے شادی میں شریک ہونا واپسی پر دیر ہوجائے تو چچا کے گھر ٹھہر جانا کل اتوار ہے اس لیے اسکول بھی نہیں جانا ہوگا مزے سے نیند پوری کرکے آنا۔
وہ نو بجے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چچا کے گھر پہنچ گیا سب تیار تھے وہ چچا شاکر کی گاڑی میں بیٹھ چل پڑئے بارات ساڑھے بارہ بجے آئی نکاح ایک بجے ہوا اور پھر کھانا ڈیڑھ بجے ختم ہوا جب سب گھر پہنچے تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے سب کی آنکھوں میں نیند تھی۔
نیند تو وحید کی آنکھوں میں بھی تھی لیکن اس کے دماغ پر کرکٹ کا میچ بھی سوار تھا میچ اگلے دن نو بجے صبح ہونے والا تھا چناں چہ جب اس کے چچا شاکر نے اس سے ٹھیرنے کو کہا تو اس نے جواب دیا گھر زیاہ دور نہیں ہے سیدھا راستہ ہے آسانی سے گھر پہنچ جاؤں گامگر رات زیادہ ہوچکی ہے اس لیے جانا مناسب نہیں ہے انہوں نے سمجھانے والے انداز سے کہا خدانخواستہ کوئی واردات ہوسکتی ہے۔
وحید کے سر پر تو میچ سوار تھا اللہ مالک ہے اس نے کہا پھر موٹر سائیکل کی چابی اٹھائی اور ہیلمٹ اٹھا کر باہر آگیا ابھی اس نے تقریباً نصف میل کا فاصلہ طے کیا ہوگاکہ ایک تنگ گلی سے ایک لڑکا جو موٹر سائیکل پر سوار تھا اس کے پیچھے آنے لگا اس کے جسم پر چمڑے کی پتلون اور جیکٹ تھی عمر تقریباً بیس بائیس برس ہوگی وہ صورت شکل ہی سے جرائم پیشہ لگتا تھا اس نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا لیکن آگے نکلنے کی کوشش کی وہ لڑکا کافی دور تک اس کے پیچھے لگارہا وحید جس سڑک پر جارہا تھا یہ ٹریفک کے سامنے آنے والی سڑک تھی رات کے تین بجے تھے اس وقت سڑک پر ٹریفک نہیں تھا بائیں جانب پُل تھا جس پر کبھی کبھار دودھ سپلائی کرنے والوں کا ٹرک گزرجاتا تھا جو اس وقت سے سپلائی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
وحیدکے دل میں قرآنی آیات کا وِرد کرکے اللہ سے دعائیں مانگنے لگا کہ اے اللہ!مجھے حفاظت سے گھر پہنچادے تو بڑا غفور الرحیم ہے۔اس کے دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی اور جسم پسینے سے شرابور تھا وحید نے کئی بار اپنے ہاتھ ہیندل پھسلتے محسوس کیا اچانک سامنے سے اسے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا جس کی ہیڈلائیٹس سے آنکھیں چکا چوند ہوئی جارہی تھیں اب وہ اس جگہ پر پہنچ چکا تھا جہاں سے پل شروع ہوتا تھا وحید نے اپنے حواس سنبھالتے ہوئے موٹر سائیکل کو بائیں جانب گھمایا اور پل پر موٹر سائیکل دوڑانے لگا تاکہ جلد از جلد واپس چچا کے گھر پہنچ جائے وہ لڑکا جو ان کے پیچھے لگا ہوا تھا فوراً ہی ان کے پیچھے نہیں آسکا اس لیے کہ درمیان میں دودھ والے کا ٹرک آچکا تھا رات زیادہ ہوچکی تھی پل کافی لمبا تھا وحید نے سر گھما کر دیکھا وہ لڑکا اب اس کے پیچھے نہیں آرہا تھا غالباً یہ سوچ کر کہ اب وہ اسے نہیں پاسکتا لڑکے نے پیچھا کرنا چھوڑدیا تھا۔
چچا کے گھر پہنچنے تک وحید نے موٹر سائیکل نہیں روکی اور سیدھا دوڑاتا ہوا چلا گیا اس کا جسم پسینے پسینے ہورہا تھا اورہاتھ ہینڈل پر پھسل رہے تھے البتہ اب وہ اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔تھوڑی دیر بعد چچا کے فلیٹ کی گھنٹی بجی جب شاکر نے دروازہ کھولا تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئے پوری بات سننے کے بعد انہوں نے کہا تم سے پہلے ہی کہہ رہا تھاکہ رات یہیں رک جاؤ لیکن تم نے کسی کی سنی ہی نہیں تم نے حماقت کی نا؟وحید نے مجرموں کی طرح سر جھکالیا تیسرے دن جب وہ اسکول گیا تو اس نے اپنے دوستوں کو یہ واقعہ سنایا سب دم بخودرہ ہوگئے جب یہ بات اسلامیات کے استاد تک پہنچی تو وہ وحید کے پاس آئے اور بولے میں نے جو حکایت جمعہ کے دن سنائی تھی وہ غالباً تم نے غور سے نہیں سنی تھی؟تم نے اونٹ کی ٹانگیں نہیں باندھیں اوراللہ پر توکل پہلے کرلیا۔
وحید نے کوئی جواب نہیں دیااس کے پاس جواب دینے کے لیے تھا ہی کیا اس نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔
دولت مند غریب
اپنی بڑی سی گاڑی میں بیٹھے سیٹھ فرید پلیٹ بھر کر سیخ کباب اور شامی کباب گرم روٹی سے کھارہے تھے ان کا بیٹا شہزاد کا ہم عمر ہوگا ملائی بوٹی سے لطف اندوز ہورہا تھا وہ اکثر اس ہوٹل پر آتے تھے شہزاد اس ہوٹل کے بیرونی حصے میں ویٹر کی نوکری کرتا تھا
کباب کی خوشبو شہزاد کی بھوک میں اضافہ کررہی تھی لیکن وہ صرف حسرت سے لوگوں کباب کھاتا دیکھ سکتا تھا اپنی بڑی سی گاڑی میں بیٹھے سیٹھ فرید پلیٹ بھر کر سیخ کباب اور شامی کباب گرم روٹی سے کھارہے تھے ان کا بیٹا شہزاد کا ہم عمر ہوگا ملائی بوٹی سے لطف اندوز ہورہا تھا وہ اکثر اس ہوٹل پر آتے تھے شہزاد اس ہوٹل کے بیرونی حصے میں ویٹر کی نوکری کرتا تھا اس کا کام ہوٹل کے سامنے کھڑی گاڑیوں میں آئے ہوئے لوگوں سے آرڈر لینا اور ان کو کھانا فراہم کرنا تھا شہزاد کا دنیا میں اپنے غریب چچا کے سوا کوئی نہ تھا جن کے ساتھ وہ رہتا تھا۔
ابھی اسے ہوٹل میں کام کرتے ہوئے چند مہینے ہی ہوئے تھے اسے معمولی کی تنخواہ ملتی تھی جس سے جیسے تیسے گزارہ ہورہا تھا جس ہوٹل میں وہ کام کرتا تھا وہاں کا کھانا بہت مہنگا تھا شہزاد وہ کھانا خرید کر تو ہرگز نہیں کھاسکتا تھا البتہ کبھی کبھی ہوٹل کے مالک خوش ہوتے تھے تو تمام نوکروں کو کھانا کھلا دیتے تھے لیکن ایسا بھی مہینے میں ایک آدھ بارہی ہوا کرتا تھا،شہزاد کی خواہش تھی کہ وہ بھی امیر ہواور کھانا خرید کر کھائے کوئی ویٹر اس کو بھی بڑے ادب سے کھانا پیش کرے اس کا حکم مانے لیکن اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی وہ احساس کمتری کا شکار ہوتا جارہا تھا سیٹھ فرید کو حسرت سے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ یہ کتنے خوش نصیب ہیں اور میں کتنا بدنصیب ہوں وہ ایسا سوچ کر اُداس ہوجاتا تھااس کے چچا اکثر کہا کرتے تھے کہ اُداس نہ ہوا کرو دنیا میں ہر انسان کی زندگی مختلف ہوتی ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس مصلحت کی وجہ سے کس انسان کو کیسی زندگی عطا کی ہے ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
وہ پوچھتا،لیکن چاچا ہم ہی غریب کیوں ہیں؟چچا سمجھاتے بیٹا دنیا میں صرف ہم ہی نہیں لاکھوں لوگ غریب ہے امیر لوگوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور غریبوں کے اپنے اللہ سب کو آزماتا ہے دنیا میں کس کو ہمیشہ رہنا ہے بھلا کام یاب وہ ہے جو اللہ کی رضا میں راضی رہے شہزاد اکثر چچا سے بحث کرتا اور کبھی کبھی اسے چاچا کی باتوں سے سکون بھی مل جاتا لیکن چند دنوں کے بعد وہ سب باتیں بھول کر پھر سے اداس ہوجاتا تھا،اس دن بھی شہزاد بہت اداسی سے لوگوں کو کھانا کھاتے دیکھ رہا تھا بارش کا موسم تھا لوگ تفریح کررہے تھے اور ہجوم بھی بہت زیادہ تھا سیٹھ فرید کی گاڑی آکر رکی دل ہی دل میں ان کی قسمت پر رشک کرکے اُداس ہونے لگا بوجھل قدموں سے وہ سیٹھ صاحب کی گاڑی کے پاس کھانے کا آرڈر لینے گیا،جی صاحب کیا کھانا پسند کریں گے؟شہزاد نے پوچھا سیٹھ صاحب کے چہرے پر اُداسی سی پھیل گئی بیٹا آئسکریم لادو شہزاد حیران ہوا کیوں کہ سیٹھ فرید جب بھی آتے تھے کچھ نہ کچھ ضرور کھاتے تھے آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ صرف آئسکریم کی فرمائش کررہے تھے اسی دوران ہوٹل کے مالک جو کہ سیٹھ فرید کے دوست تھے وہ بھی وہاں پہنچ گئے اور کہا فرید صاحب آج صرف آئسکریم سے پیٹ بھریں گے کیا؟سیٹھ فرید کی اُداسی میں مزید اضافہ ہوگیا اور گویا ہوئے بس بہت کھاپی لیا اب تو ہم صرف آئس کریم ہی کھاسکتے ہیں وہ کیوں خیریت قمر صاحب نے حیرت سے پوچھا کیا بتاﺅں قمر صاحب؟قمر صاحب نے حیرت سے پوچھا کیا بتاﺅں قمر صاحب مجھے گلے کا کینسر ہے فی الحال میں آئس کریم کے علاوہ کچھ نہیں کھاسکتا ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے سیٹھ فرید آہستہ آہستہ بول رہے تھے شاید ان کے گلے میں درد ہورہا تھا،شہزاد نے آنکھیں پھاڑ کر حیرت سے سیٹھ فرید کی بات سنی اور آئس کریم لینے چل پڑا سیٹھ فرید اپنا حال بیان کررہے تھے اور شہزاد کے ذہن میں چچا کی باتیں گونج رہی تھی کہ اللہ سب کو آزماتا ہے شہزاد کے پاس دنیا کی سب سے بڑی دولت صحت تھی اچانک اسے لگا کہ وہ سیٹھ فرید سے بھی زیادہ امیر ہوگیا ہے۔
زندہ مشین
وہ ایک بہت پرانی کتاب تھی تزئین کے دادا نے ایک دفعہ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے دادا کے زمانے میں تمام تحریریں کاغذ پر چھپا کرتی تھی تزئین اور معاذ نے کتاب کے اوراق کئی دفعہ اُلٹ پلٹ کر دیکھے تمام اوراق پیلے اور بوسیدہ ہوچکے تھے
تزئین کے نزدیک ایک عجیب واقعہ تھا جو اس نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا ،اس نے لکھا آج معاذ کو ایک ایسی چیز ملی جسے کسی زمانے میں کتاب کہتے تھے۔
وہ ایک بہت پرانی کتاب تھی تزئین کے دادا نے ایک دفعہ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے دادا کے زمانے میں تمام تحریریں کاغذ پر چھپا کرتی تھی تزئین اور معاذ نے کتاب کے اوراق کئی دفعہ اُلٹ پلٹ کر دیکھے تمام اوراق پیلے اور بوسیدہ ہوچکے تھے وہ حیرانی سے ورق پلٹ رہے تھے کیوں کہ ان کے لیے یہ بہت حیران کن تھا معاذ بولا اس زمانے میںکاغذ کی کتاب بنانا تو نِری پیسوں کو ضائع کرنے والی بات ہوگی مجھے لگتا ہے جب کوئی ایک دفعہ اس طرح کی کتاب والی تحریر کو پڑھ لیتا ہوگا تو وہ کتاب پھینک دیتا ہوگا ہمارے کمپیوٹر کی اسکرین میں تو ایسی لاکھوں تحریریں محفوظ ہیں اور کمپیوٹر کی یادداشت اتنی ہی اور کتابی تحریروں کو بھی محفوظ کرسکتی ہیں تزئین گیارہ سال کی تھی وہ ابھی کمپیوٹر اسکرین پر اتنی کتابیں تحریریں نہیں پڑھ سکتی تھی جتنی معاذ پڑھ چکا تھا کیوں کہ وہ تیرہ سال کا تھا تزئین نے پوچھا معاذ تمہیں یہ کتاب کہاں سے ملی معاذ نے دیکھے بغیر اشارہ کرتے ہوئے کہا کباڑیے سے شاید عجائب گھروالوں میں سے کسی نے بیچ دی ہوں وہ بدستور کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔
تزئین نے پوچھا یہ کس موضوع پر ہے؟معاذ بولا یہ اسکول کے متعلق ہے تزئین تعجب سے بولی اسکول؟وہ اسکول جو دادا کے بچپن میں کسی عمارت میں ہوا کرتے تھے اس کے بارے میں لکھنے والی کیا بات ہوسکتی ہیں؟ہمارا مشینی استاد تو ہمارے گھر کے اندر ہی ہوتاہے پچھلے چند دنوں سے اس کا مشینی استاد جغرافیہ کا مضمون پڑھاتے ہوئے اس کے امتحان پر امتحان لے رہا تھا اور ہر امتحان کے بعد اس کا نتیجہ خراب سے خراب تر ہوتا جارہا تھا حتیٰ کہ امی نے ایک دن اسے پکڑ کر جھنجوڑا اور پھر اسے قصبے کے انسپکٹر کے پاس لے گئیں
وہ ایک سرخ چہرے والا گول مٹول شخص تھا جس کا کمرا چھوٹے چھوٹے اوزاروں برقی تاروں اور مختلف جسامت کے ڈبوں سے بھرا پڑا تھا وہ تزئین کو دیکھ کر مسکرایا اور کھانے کے لئے ایک سیب دیا پھر انسپکٹر نے تزئین کے مشینی استاد کو جس کے چہرے کی جگہ ایک بڑی سی کالے رنگ کی اسکرین لگی ہوئی تھی منٹوں میں اُدھیڑ کر رکھ دیا انسپکٹر نے ایک گھنٹے میں ہی روبوٹ استاد کو دوبارہ جوڑدیا حال آنکہ تزئین کی خواہش تھی کہ کاش انسپکٹر کو بھی اسے جوڑنا نہ آتا ہوتا۔
لیکن مشینی استاد کے چہرے پر لگی ہوئی اسکرین پر فوراً ہی اس کے سبق لکھے ہوئے آنے لگے اور ساتھ سبق کے متعلقہ ہدایت بھی اس سارے سبق سے تزئین کو اتنی چِڑ نہیں تھی جتنی گھر میں بیٹھ کر گھریلو کام سے جو اسے استاد کے سبق دینے کے بعد کرنا ہوتا تھا اسے یہ سارا ہوم ورک اسکرین کے نیچے لگی ہوئی ایک سلیٹ پر مشینیی قلم سے لکھنا پڑتا تھا روبوٹ استاد اسے فوراً نتیجہ بتا دیتا تھا جواب غلط ہوتا تو اتنی زور سے گھنٹی بجتی کہ امی اپنے کمرے سے باہر نکل کر پوچھتیں کون سا جواب غلط ہے۔
انسپکٹر اپنا کام مکمل کرکے دوبارہ مسکرایا اور پیار سے تزئین کے سر کو تھپتھپایا پھر اس نے تزئین کی امی سے کہا تزئین کا قصور نہیں تھا بلکہ اس مضمون کے اگلی جماعتوں کے اسباق اسکرین پر سے گزرنے لگے تھے کئی دفعہ کمپیوٹر میں اس طرح کی فنی خرابی ہوجاتی ہے میں نے اسباق کو تزئین کی ذہنی سطح کے مطابق ادا کردیا ہے اب تزئین کو جغرافیہ کے مضمون سے کوئی مشکل نہیں ہوگی ایک دن معاذ نے تزئین کو پھر اس کتاب کے بارے میں بتایا جس اسکول کا ذکر اس کتاب میں ہے وہ کئی صدیوں پہلے ہوا کرتے تھے صدیاں پہلے کیا سمجھیں؟
تزئین نے کہا واقعی مجھے صدیوں پہلے کے اسکولوں کے بارے میں مکمل پتا نہیں لیکن یہ بات تو میں بھی سنی تھی کہ تب اسکولوں میں استاد ہوا کرتے تھے جو پڑھاتے تھے معاذ نے بتایا وہ آج کل کی طرح مشینی استاد نہیں ہوتے تھے بلکہ انسان ہوا کرتے تھے،
تزئین حیران ہوتے ہوئے بولی انسان؟انسان استاد کیسے ہوسکتے ہیں؟ان کی یادداشت کمپیوٹر جتنی کیسے ہوسکتی ہیں؟
معاذ بولا وہ بچوں کو سبق پڑھایا کرتے تھے انہیں گھر میں کرنے کو کام دیتے تھے اور سوالوں کے جواب پوچھتے تھے۔
تزئین نے پوچھا لیکن انسان تو ذہانت میں مشین کا مقابلہ نہیں کرسکتامیں یہ ہرگز نہیں کروں گی کہ کوئی اجنبی شخص میرے گھر آکر بیٹھے۔یہ سن کر معاذ ہنسنے لگا پھر بولا ارے وہ استاد گھروں میں ہمارے مشینی انسانوں کی طرح نہیں رہتے تھے اسکولوں کے لیے علاحدہ عمارتیں ہوتی تھی جہاں طالب علم بچے پڑھنے جایا کرتے تھے تزئین نے حیرت سے پوچھا کیا سبھی بچے ایک طرح کے سبق پڑھتے تھے؟معاذ نے بتایا ہاں ایک جماعت کے بچے ایک طرح کا سبق پڑھتے تھے تزئین بولی لیکن امی توکہتی ہیں کہ ہمیں استادوں کو ایک مخصوص طرح سیٹ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ بچوں کو سبق پڑھاسکیں اور ہر بچہ مختلف سبق پڑھتا ہے بچوں کا جو پڑھنے کو دل چاہتا ہے مشینی استاد کو ویسی ہدایت کردی جاتی ہے معاذ بولا تم چاہو تو بے شک ان پرانے اسکولوں کے بارے میں بھی نہ پڑھو تزئین جلدی سے بولی میں نے کب کہا مجھے پرانے اسکولوں کے بارے میں پڑھنا پسند نہیں میں ان پرانے عجیب و غریب اسکولوں کے بارے میںضرور پڑھوں گی ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ان کی امی کو آواز گونجی تزئین اسکول کا وقت ہوگیاتزئین کا اسکول اس کے سونے والے کمرے کے برابر ہی تھا تزئین کے اسکول کا روزانہ یہی وقت تھا ماسوائے ہفتہ اور اتوار کے وہ بیٹھی تو اسکرین روشن ہوگئی اور اس میں سے آواز آئی آج ہم حساب میں کسروں کا سبق پڑھیں گے مہربانی فرما کر اپنا کل کام مجھے دکھاﺅ ،تزئین کے منہ سے بے احتیاط ایک ٹھنڈی سانس نکلی وہ انہی پرانے اسکولوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جن کے بارے میں ان کے دادا باتیں کرتے تھے پاس پڑوس کے سارے بچے جہاں پڑھنے جایا کرتے تھے وہ اسکول کے صحن میں اونچا ہنستے تھے شور مچاتے تھے اپنی اپنی جماعتوں میں اِکٹھا بیٹھتے تھے اور ہر چھٹی کے وقت اِکٹھا گھروں کو جاتے تھے۔
وہ سب ایک جیسا سبق روز پڑھتے تھے اس لیے اسکول کا کام کرتے ہوئے گھروں پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور آپس میں باتیں بھی اور ہمدردی جیسی خوبصورت صفت لکھنے والے اساتذہ بھی انسان تھے۔
اُدھر روبوٹ استاد کی اسکرین پر لکھا جارہا تھا جب ہم دو کسروں کو جمع کرتے ہیں تزئین سوچ رہی تھی کہ پہلے سب لوگ ایک دوسرے سے کتنی محنت کرتے ہوں گے بچوں کو اسکول جانے میں انہیں کتنی خوشی ملتی ہوگی انسان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے ہیں اور زندگی کامزہ لیتے ہیں ایک ہم ہیں کہ مصنوعی مشینی زندگی گزار رہے ہیں لگتا ہے جیسے ہم خود بھی زندہ مشینیں ہیں کاش میں اسی دور میں پیدا ہوئی ہوتی کاش!
سکوائش کا شہزادہ
دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستان کا نام اس کے کھلاڑیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ہا کی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسکوائش میں بھی پاکستان کا نام دنیا بھر میں جانا جا تا ہے۔ اسکوائش میں پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے کھلاڑی کا نام جہانگیر خان ہے، جو عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان ہیں۔
اسکوائش کے کئی عالمی ریکارڈز ان کے نام ہیں۔ اور انھیں اس کھیل کی تاریخ کا عظیم ترین کھلاڑی تسلیم کیا گیا ہے۔جہانگیر خان نے ایک لمبے عرصے تک اسکوائش کے کورٹ اور لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ آج بھی ان کا نام اسکوائش کے عظیم کھلاڑیوں میں لیا جاتا ہے۔
بلاشبہ وہ اسکوائش کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ فتوحات کا منظر در یکارڈ رکھنے والے جہانگیر خان 10دسمبر 1923ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
جہانگیر خان کے خاندان کا تعلق پشاور کے ایک گاؤں سے تھا۔ اسکوائش ان کا خاندانی کھیل ہے۔
جہانگیر خان کے والد روشن خان1957ء میں برٹش اوپن چیمپیئن رہے، پھر ان کے چچازاد رحمت خان نے بھی یہی اعزاز حاصل کیا۔ ان کے چچا بھی اس کھیل سے وابستہ رہے۔ بچپن میں جہانگیر جسمانی لحاظ سے بہت کمزور تھے۔ ڈاکٹروں نے انھیں کسی بھی قسم کے جسمانی کھیل سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی۔
علاج کے بعد ان کے والد روشن خان نے اپنا خاندانی کھیل یعنی اسکوائش کھیلنے کا مشورہ دیا۔ .صرف 15 برس کی عمر میں انھوں نے ورلڈچیمپیئن شپ جیت لی۔ جہانگیر خان یہ ورلڈ ایونٹ جیتنے والے دنیا کے کم عمر کھلاڑی تھے۔ اسی سال ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے۔
جہانگیر خان کے بڑے بھائی رستم خان آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے ایک میچ میں اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ جہانگیر خان کچھ عرصے کے لئے بھائی کی موت کے صدمے سے نہ نکل سکے۔ اس وجہ سے وہ کھیل سے دور ہو گئے ،تا ہم پھر اپنے بھائی کی یاد اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انھوں نے اسکوائش کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
جہانگیر خان نے اپنے کوچ کے لیے اپنے چچا زاد رحمت خان کا انتخاب کیا۔ ان کی کیریئر میں زیادہ عرصہ رحمت خان ہی کو چ ر ہے۔1981ء میں صرف 17 برس کی عمر میں فائنل میں انھوں نے آسٹریلیا کے جیف ہنٹ کو شکست دے کر ورلڈ اوپن اسکوائش چیمپیئن شپ جیت لی۔
یہ ٹورنامنٹ جیت کر وہ دنیا کے کم عمر ترین ورلڈ اوپن چیمپیئن بھی بن گئے۔ اس ٹورنامنٹ میں کا میابی کے بعد جیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اگلے پانچ برسوں تک وہ ناقابل شکست رہے۔ انھوں نے اسی دوران 555 میچوں میں کامیابی حاصل کی۔
جس پر اسکوائش کے اس عظیم کھلاڑی کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرلیا گیا۔ ایک کم زور جسامت والے لڑکے نے جہاں اسکوائش کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ، وہیں نئے آنے والوں کے لیے وہ ایک مثال بھی بن گئے۔
اگلے سال 1982ء میں انھوں ایک پوائنٹ ہارے بغیر انٹر نیشنل اسکوائش پلئیرز ایسوی ایشن چیمپین شپ جیت کر سبھی کو حیران کر دیا۔ 1981ء سے جیت کا جو سلسلہ جہانگیر خان نے شروع کیا تھا ، آ خر555 میچوں کے بعد1986ء میں اختتام پذیر ہوا، جب نیوزی لینڈ کے اسکواش پلیئر Ross نے انھیں شکست دی۔
مسلسل پانچ سال تک کا جو عروج قدرت نے جہانگیر خان کے لیے لکھ دیا تھا وہ کسی اور کھلاڑی کو نصیب نہ ہوا۔ جہانگیر خان اپنی اس جیت کا سہرا اپنے کوچ رحمت خان کے سر باندھتے ہیں کہ وہ ان کی فٹنس برقرار رکھنے کے لیے سخت ٹریننگ کرواتے تھے۔
1983 ء سے 1986ء تک انھوں نے شمالی امریکا میں کھیلی جانے والی ہارڈ بال اسکوائش میں بھی حصہ لیا اور یہاں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔۔ جہانگیر خان کے مد مقابل نارتھ امریکا کے سر فہرست اسکوائش پلئیر مارک ٹیلر تھے۔ 1986ء میں ہی ایک اور پاکستانی اسکوائش کھلاڑی جان شیر خان کا نام سامنے آیا، جنھوں نے جہانگیر خان کولکارا۔
ابتدائی دو سالوں میں جہانگیر خان کو جان شیر خان کے مقابلے میں کامیابی ملی ، اس کے بعد اگلے آٹھ میچوں میں وہ اپنے ہم وطن جان شیر خان سے شکست کھا گئے۔ 1988ء میں جہانگیر خان نے جان شیر خان کو شکست دے کر ان کی جیت کے تسلسل کا خاتمہ کیا۔
اس سال انھوں نے جان شیر خان سے 15 مقابلوں میں سے گیارہ میں کامیابی حاصل کی۔ جان شیر خان کو جہانگیر خان کا سب سے بڑامد مقابل کہا جاتا تھا۔ 1988ء میں ہی جہانگیر خان نے ورلڈ اوپن ٹائل آخری بار جیتا تھا۔ تا ہم برٹش او پن میں ان کی جیت کا سلسلہ جاری رہا۔
1982ء سے 1991ء تک وہ برٹش اوپن ٹائٹل کے فاتح رہے، جو آج بھی ایک ریکارڈ ہے۔ سکوائش کا یہ قابل فخر کھلاڑی1993ء میں ریٹائر ہو گیا۔ انھیں ان کی خدمات کے صلے میں پرائیڈ آف پرفارمنس (تمغہ حسن کارکردگی ) دیا گیا۔ بعد میں انھیں پاکستان کا سول ایوارڈہلال امتیاز بھی دیا گیا۔
جہانگیر خان اپنے لیے سب سے بڑا ایوارڈ اس خطاب کہتے ہیں، جو انہیں قوم کی طرف سے دیا گیایعنی ” اسپورٹس مین آف دی میلیلیم،، لینی صدی کا سب بڑا کھلاڑی. اپنی کامیابی اور چاق چوبند رہنے کا راز بتاتے ہوئے جہانگیر خان نے کہا کہ مناسب غذا کا استعمال اور روزانہ دو گلاس دودھ ان کی خوراک کا لازمی جزو ہوتا تھا۔
دن کا آغاز جاگنگ سے کرتے تھے۔ یہ جاگنگ تقریبا14 کلومیٹر فاصلے پر محیط ہوتی تھی اور اس کے لیے انھوں نے دو گھنے متعین کیے ہوئے تھے۔ دوپہر میں ورزش گاہ جا کر مختلف ورزشیں کرنا،جم جاکے پریکٹس کرنا، جب کہ اتوار کو مکمل آرام کرتے تھے۔ ٹائم میگزین نے20 سال تک انھیں ”ایشیا کاہیرو“ کی فہرست میں شامل کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جہانگیر خان نے پروفیشنل اسکواش فیڈریشن کے صدر اور ورلڈ اسکواش فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجا م دیں۔
دجال کون؟
تیسرے سال اس صورتحال سے دنیا میں شدید قحط آجائیگا۔ اور ہر طرف پانی اور اجناس کی طلب بڑھ جائے گی۔ یہ دجال کی آمد کا اعلان ہوگا
زمین اپنی پیداوار ایک تہائی کم کر دے گی۔ آسمان سے بارشوں کاسلسل کم ہو جائے گا چنانچہ زمین کی گلہ اگلنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ ایک سال گزرے گا اور زمین اپنی پیداوار مزید ایک تہائی کم کر دے گی۔
آسان سے بارشیں مزید کم برسیں گی۔ تیسرے سال اس صورتحال سے دنیا میں شدید قحط آجائیگا۔ اور ہر طرف پانی اور اجناس کی طلب بڑھ جائے گی۔ یہ دجال کی آمد کا اعلان ہوگا۔ ایسے حالات میں دجال دنیا میں نمودار ہوگا۔ دجال ایک شخص کا نام نہیں۔
دنیا کے نظام پر ایک سوچ ، ایک عذاب اور ایک بہت بڑی آزمائش کا نام ہے۔ اللہ تعالی نے دنیا کی تکمیل کے بعد بنی نوع انسان کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا بلکہ اپنی خاص رحمت ہم انسانوں پہ کی۔ اور اپنے چنیدہ نیک بندوں یعنی رسولوں کے ذریعے سے مسلسل ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔
جس قوم نے اطاعت کی وہ کامیاب ہوا۔ اور جنہوں نے خواہش نفس کی پیروی کی۔ عذاب کا شکار ہوا۔ دجال کے خروج سے قبل اس کیلئے راہ ہموار کرنے کا سلسلہ یہود ونصاری کی کوششوں سے جاری ہے۔ خفیہ اسرائیلی سازشیں تو عرصہ سے جاری ہیں۔ اس کی ظاہری مثال یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کے قیام کے اعلان سے دیکھی جاسکتی ہے۔
دجال کو اللہ بہت زیادہ قوت عطا فرمائیں گے۔ یہ دنیا کے تمام وسائل پر اس وقت قابض ہوگا جب دنیا شدید قحط کی لپیٹ میں ہوگی۔ اوریہ ساری دنیا کے اردگرداپنی جدید سواری میں چکر لگائیگا۔ دجال دنیاپر چالیس دن قیام کر دیا۔ پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا۔
دوسرادن ایک ماہ کے برابر اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا باقی دن عام دنوں کی مثل ہونگے۔ اس کی ایک آنکھ ہوگی۔ پیشانی پہ ک ۔ف۔ ر” کفر"یا" کافر " لکھا ہوگا جسے ایمان والا پڑھ سکے گا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔
سیٹلائیٹ اورنیٹ کے ذریعے سب ممالک اور اقوام جڑ چکے ہیں۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آستانہیں۔محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔اقبال" ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق دجال کے ہاتھ میں اللہ ایسی قوت دیں گے کہ اس کے حکم پہ آسمان سے بارش اور زمین سے پیداوار حاصل ہوگی۔
زمین اپنے خزانے اگلے گی۔ اس کے پیچھے خزانے اور لوگ ایسے چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں ملکہ مکھی کے پیچھے چلتی ہیں۔ جیسے لوہا مقناطس کی طرف کھنچا آتا ہے۔ اسکے حکم پر جانور صحت مند ہوجائیں گے بیمارتندرست۔ یہ کہے گا کہ مجھے رب مانو۔
پھراپنے دو کارندے شیطانوں کوحکم دے گا کہ اس شخص جس سے یہ اسوقت ہم کلام ہوگا کہ والدین کی شکل اختیار کرو۔ اب اس آدمی سے کہے گا مجھے رب مانو میں تمھارے مردہ والدین کوزندہ کرسکتا ہوں اور اپنے شیطانی شعبدے کے ذریعے نقلی والدین پیش کر دے گا۔
کمزور ایمان والے اس کی با توں میں آ جائیں گے۔ جب کہ پختہ ایمان والاکہے گا تو کانادجال ہے۔ جس پر اس کوآرے سے چیردے گا۔
یہ آدمی کوقتل کے بعد دوبارہ زندہ کر دے گا۔ اور کہے گا کہہ میں تیرارب ہوں۔ یہ سب دجال کے ذاتی کمال سے نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کی رسی دراز کریں گے اور انسانوں کی آزمائش کے لیے اسکو قوت دی جائے گی کہ دیکھاجائے کہ کون حق کی پیروی کر تا ہے اور کون باطل کی۔
اس کے پاس بہت سے حربے ہونگے بہت شعبدے ہونگے اور وسائل پر اسکا قبضہ ہو گا یہ دنیاپہ قیامت سے پہلے ایک قیامت برپا کر دے گا۔ امام مہدی کا نزول ہوگا۔ وہ اپنے جانبازوں کو لے لڑنے کی تیاری کر رہے ہونگے کہ حضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا۔
حضرت عیسیٰ دجال کو " باب لد " کے مقام پرقتل کرینگے اس وقت دجال کے ساتھ ستر ہزار یہودیوں کی جماعت ہوگی۔ یہ یہودی لڑائی کے دوران” غرقد“نامی درخت میں پناہ لینگے۔ اور یہ درخت یہودی کو اپنے اندر چھپا لے گا۔ اللہ کی مددسے فتح ہوگی۔
فتنہ دجال "بعثت آدم سے قیامت تک کی سب سے بڑی اور ہولناک آزمائش ہے۔ اس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی اور امت کومحفوظ رہنے کے لیے سورة کہف کہ پہلی دس آیات حفظ کر نے کی تلقین فرمائی۔ اللہ مجھے آپ سب کو اور ہماری آ نے والی نسلوں کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
0 Response to "دس کہانیاں"
Post a Comment