
میرے پانی میں ملا اور ذرا سا پانی
میرے پانی میں ملا اور ذرا سا پانی
میرے پانی میں ملا اور ذرا سا پانی
میری عادت ہے کہ پیتا ہوں میں پتلا پانی
اللہ اللہ صفائی سے وہ رغبت اس کی
اس نے حقے کا کئی سال نہ بدلا پانی
مجھ کو شوگر بھی ہے اور پاس شریعت بھی ہے
میری قسمت میں نہ میٹھا ہے نہ کڑوا پانی
چائے ہی چائے بدن میں ہے لہو کے بدلے
دوڑتا اب ہے رگوں میں یہی تتا پانی
میں نے اک فلسفی اس فکر میں ڈوبا دیکھا
ہوتا کس طرح کا، گیلا جو نہ ہوتا پانی
اتنی اچھی بھی نہیں اتنی سماجی تنقید
بند ہو جائے نہ انور تیرا حقہ پانی
0 Response to "میرے پانی میں ملا اور ذرا سا پانی"
Post a Comment