-->
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں




ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی ديکھ کيا چاہتا ہوں

ستم ہو کہ ہو وعدہِ بے حِجابی

کوئی بات صبر آزما  چاہتا ہوں

يہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا

وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل

چراغِ سحر ہوں ، بُجھا چاہتا ہوں

بھری بزم ميں راز کی بات کہہ دی

بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں



ستم: ظلم _   بے حِجابی: کھل کر سامنے آنا _ صبر آزما: جس سے قوت برداشت پرکھی جائے  _  زاہدوں: عبادت گزاروں  _  لن ترانی: تو نہیں دیکھ سکتا، طور پر حضرت موسیٰ کی درخواست پر خدا کا جواب  _  کوئی دم کا مہماں: مراد فنی انسان _  اہلِ محفل: دنیا والے _ چراغِ سحر: صبح سویرے کا چراغ جسے کسی بھی وقت بجھایا جا سکتا ہو _ بھری بزم: بھری محفل _  بے ادب: گستاخ



0 Response to "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں"

Post a Comment

Iklan Atas Artikel

Iklan Tengah Artikel 1

Iklan Tengah Artikel 2

Iklan Bawah Artikel