
آفتاب
آفتاب
اے آفتاب! روح و روان جہاں ہے تو
شيرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تيرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم يہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے ميں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
ہر شے کو تيری جلوہ گری سے ثبات ہے
تيرا يہ سوز و ساز سراپا حيات ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے ميں نور ہے
دل ہے ، خرد ہے ، روح رواں ہے ، شعور ہے
اے آفتاب ، ہم کو ضيائے شعور دے
چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو
يزدان ساکنان نشيب و فراز تو
تيرا کمال ہستی ہر جاندار ميں
تيری نمود سلسلہ کوہسار ميں
ہر چيز کی حيات کا پروردگار تو
زائيدگان نور کا ہے تاجدار تو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قيد اول و آخر ضيا تری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکل الفاظ کے معنی
گایتری: ہندؤں کی مقدس کتاب رگ وید کی ایک بہت قدیم اور مشہور دعا، روح واں: مراد جس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے، شیرازہ بند: مراد کائنات کے انتظام کو مضبوط بنانے والا، دفتر کون و مکاں: مراد یہ کائنات جس مختلف جز ہیں، باعث: وجہ، نمود: ظاہر ہونے کی حالت، ہست و بود: کائنات، دنیا، تقاضا: صلاحیت، اہلیت، جلوہ گری: ظاہر ہونے کی کیفیت، ثبات: مراد زندگی، سوز وساز: مراد تپش اور گرمی، ضیائے شعور: سمجھ بوجھ کی روشنی، محفل وجود: مراد کائنات، سامان طراز: مراد انتظام/بندوبست کرنے والا، یزداں: قدیم ایرانیوں کے مطابق نیکی کا خدا، نشیب و فراز: مراد زمین اور اوپر کی دنیا، ہستی: زندگی، سلسلہ کوہسار: پہاڑوں کی قطار، پروردگار: پالنے والا، زائیدگان نور: روشنی سے پیدا ہونے والے، ہندؤں کے دیوتا، تاجدار: بادشاہ، قیداول و آخر: یعنی ابتدا اور انتہا کی پابندی،
0 Response to "آفتاب"
Post a Comment