-->
فلسفہ غم

فلسفہ غم



فلسفہ غم

گو سراپا کيف عشرت ہے شراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگی
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی
ہے 'الم' کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی

ايک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہيں
جو خزاں ناديدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہيں

Baca Juga

آرزو کے خون سے رنگيں ہے دل کی داستاں
نغمہ انسانيت کامل نہيں غير از فغاں
ديدہ بينا ميں داغ غم چراغ سينہ ہے
روح کو سامان زينت آہ کا آئينہ ہے

حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئينۂ دل کے ليے گرد ملال

غم جوانی کو جگا ديتا ہے لطف خواب سے
ساز يہ بيدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائر دل کے ليے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے

غم نہيں غم، روح کا اک نغمۂ خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے

شام جس کی آشنائے نالۂ 'يا رب' نہيں
جلوہ پيرا جس کی شب ميں اشک کے کوکب نہيں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عيش و عشرت ہی رہا
ہاتھ جس گلچيں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے

اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کيوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے

ہے ابد کے نسخہ ديرينہ کی تمہيد عشق
عقل انسانی ہے فانی، زندۂ جاويد عشق
عشق کے خورشيد سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے ، تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھی دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہيں
روح ميں غم بن کے رہتا ہے ، مگر جاتا نہيں

ہے بقائے عشق سے پيدا بقا محبوب کی
زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی

آتی ہے ندی جبين کوہ سے گاتی ہوئی
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادی کی چٹانوں پر يہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھی ، اس کے گوہر پيارے پيارے بن گئے
يعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے
جوئے سيماب رواں پھٹ کر پريشاں ہو گئی
مضطرب بوندوں کی اک دنيا نماياں ہو گئی
ہجر، ان قطروں کو ليکن وصل کی تعليم ہے
دو قدم پر پھر وہی جو مثل تار سيم ہے
ايک اصليت ميں ہے نہر روان زندگی
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئی

پستی عالم ميں ملنے کو جدا ہوتے ہيں ہم
عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہيں ہم

مرنے والے مرتے ہيں ليکن فنا ہوتے نہيں
يہ حقيقت ميں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہيں
عقل جس دم دہر کی آفات ميں محصور ہو
يا جوانی کی اندھيری رات ميں مستور ہو
دامن دل بن گيا ہو رزم گاہ خير و شر
راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گيا ہو آرزو سے گوشہ گير
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمير
وادی ہستی ميں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو

مرنے والوں کی جبيں روشن ہے اس ظلمات ميں
جس طرح تارے چمکتے ہيں اندھيری رات ميں



Related Posts

0 Response to "فلسفہ غم"

Post a Comment

Iklan Atas Artikel

Iklan Tengah Artikel 1

Iklan Tengah Artikel 2

Iklan Bawah Artikel