-->
دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تيز ہے ساقی

دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تيز ہے ساقی



دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تيز ہے ساقی


دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تيز ہے ساقی
دل ہر ذرہ ميں غوغائے رستا خيز ہے ساقی
متاع دين و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
يہ کس کافر ادا کا غمزئہ خوں ريز ہے ساقی
وہی ديرينہ بيماری ، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگيز ہے ساقی
حرم کے دل ميں سوز آرزو پيدا نہيں ہوتا
کہ پيدائی تری اب تک حجاب آميز ہے ساقی
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ايراں ، وہی تبريز ہے ساقی
نہيں ہے نااميد اقبال اپنی کشت ويراں سے
ذرا نم ہو تو يہ مٹی بہت زرخيز ہے ساقی
فقير راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
بہا ميری نوا کی دولت پرويز ہے ساقی

Baca Juga




Related Posts

0 Response to "دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تيز ہے ساقی"

Post a Comment

Iklan Atas Artikel

Iklan Tengah Artikel 1

Iklan Tengah Artikel 2

Iklan Bawah Artikel