-->
ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز

ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز




ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز


Baca Juga

ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہيز
بچھائی ہے جو کہيں عشق نے بساط اپنی
کيا ہے اس نے فقيروں کو وارث پرويز
پرانے ہيں يہ ستارے ، فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہيے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخيز
کسے خبر ہے کہ ہنگامہ نشور ہے کيا
تری نگاہ کی گردش ہے ميری رستاخيز
نہ چھين لذت آہ سحر گہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آميز
دل غميں کے موافق نہيں ہے موسم گل
صدائے مرغ چمن ہے بہت نشاط انگيز
حديث بے خبراں ہے ، تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد ، تو با زمانہ ستيز




Related Posts

0 Response to "ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز"

Post a Comment

Iklan Atas Artikel

Iklan Tengah Artikel 1

Iklan Tengah Artikel 2

Iklan Bawah Artikel