
اردو لطیفے - پارٹ 14
بچہ دکاندار سے
بچہ (دکاندار سے) ایک روپے والی گیند کتنے کی ہے۔ دکاندار (بے خیالی میں) دو روپے گی۔
استاد شاگرد سے
استاد (شاگرد سے) اچھا یہ بتاوٴ دن میں تارے کیوں نظر نہیں آتے؟ شاگرد: جناب وہ رات بھر جاگتے ہیں اس لیے دن میں سونے چلے جاتے ہیں۔
بچہ
چ: (اپنے دوست سے) میرے دادا اتنے بہادر تھے کہ انہوں نے ایک جنگ میں ایک آدمی کی ٹانگ کاٹ دی۔ دوسرا بچہ: ٹانگ کیوں کاٹی؟ گردن کیوں نہیں کاٹی۔ پہلا بچہ: کیونکر گردن پہلے ہی کسی نے کاٹ دی تھی۔
باپ بیٹے سے
باپ (بیٹے سے) تم نے مرغی کے انڈے کیوں توڑ دےئے؟ بیٹا: میں نے سوچا کہ بچے دم گھٹنے سے مر نہ جائیں۔
استاد شاگرد سے
استاد (شاگرد سے) مجھے بتاوٴ کہ بارش کیوں ہوتی ہے؟ شاگرد: کیونکہ فرشتے آسمان پر فرش دھوتے ہیں۔
بادشاہ
بادشاہ (مزدور سے کیا تو نے میرا مقبرہ تیار کر لیا۔ مزدور: جی بادشاہ سلامت۔ بادشاہ: اس میں کسی چیز کی کمی تو نہیں؟ مزدور (ادب سے) بس آپ کی کمی ہے حضور۔
استاد شاگرد سے
استاد (شاگرد سے) انڈے اور ڈنڈے میں کیا فرق ہے؟ شاگرد: جناب دونوں کھانے کی چیزیں ہیں۔
استاد شاگرد سے
استاد (شاگرد سے) بتاوٴ اس نقشے میں پانی کہا ہے؟ شاگرد: جناب اگر اس نقشے میں پانی ہوتا تو یہ گیلا ہوتا۔
بیٹا
بیٹا: ابا جان مجھے ایک روپیہ جرمانہ ہوا۔ ابا جان: وہ کیوں؟ بیٹا: میں آج اسکول لیٹ گیا تھا۔ ابا جان: میں تمہیں اسکول لیٹنے کے لیے بھیجتا ہوں یا پڑھنے کے لیے؟
گاہک
گاہک: اس بھینس کی قیمت دس ہزار بہت زیادہ ہے اس کی تو ایک آنکھ بھی نہیں ہے۔ مالک: آپ کو اس کا دودھ دوہنا ہے یا اس سے کشیدہ کاری کرانی ہے۔
بھکاری
بھکاری : اللہ کے نام پر دو بابا۔ بچی: میں تمہیں بابا نظر آتی ہوں۔ بھکاری: اللہ کے نام پر دو بیٹا۔ بچی: میں تمہیں بیٹا نظر آتی ہوں۔ بھکاری: اللہ کے نام پر دو بیٹی۔ بچی: میرا نام رقیہ ہے۔ بچی (خوش ہو کر) ہاں‘ یہ ہوئی نا بات۔ جاوٴ معاف کرو بابا۔
کنجوسی
ہما جو اپنی کنجوسی کی وجہ سے اسکول بھر میں مشہور تھی‘ اس کی صرف دو سہیلیاں تھیں۔ ایک دن ہما نے ایک ٹافی خرید لی اور ٹافی کے تین ٹکڑے کیے جس میں سے بڑا حصہ خود نے رکھ لیا اور باقی دو اپنی دونوں ”دوستوں“ کو دےئے‘ جس پر انہوں نے شکریہ کہا تو ہما نے بڑی ادا سے کہا۔
ارے بھئی ہمارے ساتھ رہو گی تو یونہی عیش کرو گی۔ دوسرے دن اسی لڑکی نے اپنی دوستوں کو ٹوفی کھانے کا پوچھا تو اس میں سے ایک لڑکی نے کہا (جو ٹافی والا معاملہ دیکھ چکی تھی) نہیں ایسے عیش نہیں کرتے۔
استاد شاگرد سے
استاد (شاگرد سے) ” مین تم سے اتنی دیر سے سوال کا جواب پوچھ رہا ہوں تم جواب کیوں نہیں دیتے۔“ شاگرد (معصومیت سے) ”میری امی منع کرتی ہیں کہ بڑوں کے سامنے جواب نہیں دینا چاہیے۔“
شکور
شکور: تاریخ میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ منظور: ”اچھا پھر اکبر بادشاہ کی فتوحات پر روشنی ڈالو۔“ شکور: ضرور ڈالتا مگر آج ٹارچ میں سیل نہیں ہیں۔“
ایک صاحب نجومی
ایک صاحب نجومی کے پاس گئے اور اس سے اپنی قسمت کا حال پوچھنے لگے۔ نجومی نے ہاتھ دیکھ کر کہا۔ ”تمہاری قسمت میں پانچ سال تک دکھ ہے۔“ ”اور پانچ سال بعد کیا ہو گا؟“ وہ صاحب بولے۔
نجومی پھر بولا۔ ”پانچ سال مزید دکھ ہے۔“ ”اس کے بعد کیا ہو گا؟“ ”اس کے بعد تم دکھ سہنے کی عادی ہو جاوٴ گے۔“
ایک دوست
چ (دوسرے دوست سے) اس شہر میں زیادہ تر ایسی لڑکیاں رہتی ہیں جو شادی نہیں کرنا چاہتیں۔“ دوسرا دوست بولا۔ ”مگر تمہیں کیسے پتہ چلا؟“ اس پر پہلا دوست بولا۔ ”میں ان سے پانے لیے پوچھ چکا ہوں۔“
ڈاکٹر
ڈاکٹر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ مریض! جناب کھانا کھانے کے بعد بھوک نہیں لگتی۔
ایک امیر
ایک امیر آدمی مرنے لگا تو ایک غریب نے اسے کہا کہ جناب مرتے وقت تو خدا کی راہ میں کچھ دے جاےئے۔ امیر آدمی جو نیم بے ہوش تھا۔ کہنے لگا جان تو دے رہا ہوں اور کیا دوں۔
استاد شاگرد سے
استاد (شاگرد سے) بتاےئے پاکستانی اسٹودنٹس میں سب سے زیادہ کس چیز کی کمی ہے۔ شاگرد! جناب چھٹی کے لیے اچھے بہانے کی۔
استاد شاگرد سے
(استاد شاگرد سے) سال میں کتنے موسم ہوتے ہیں؟ شاگرد جناب چار موسم! استاد شاباش بیٹے۔ کون کون سے ہیں۔ نام بتاےئے؟ شاگرد نمبر 1 الیکشن‘ نمبر 2 ہڑتال‘ نمبر 3 گیم ڈے‘ نمبر 4 امتحانات۔
ایک دن
ایک دن ساجد اسکول دیر سے پہنچا تو استاد نے پوچھا یہ کوئی وقت ہے آنے کا‘ تم کہاں تھے تو ساجد نے جواب دیا جناب میں آ رہا تھا کہ ٹرین آ گئی میں ٹرین کے نیچے سے آیا ہوں اس لیے دیر ہو گئی۔ استاد نے حیران ہو کر پوچھا تم زندہ کیوں ہو‘ ساجد جناب میں پل کے نیچے تھا۔
ڈاکٹر مریض سے
ڈاکٹر مریض سے: تمہاری نبض تو گھڑیوں کی طرح باقاعدگی سے چل رہی ہے۔ مریض: آپ کی انگلیاں میری گھڑی پر ہی تو ہیں۔
راحت
راحت (اعجاز) سے تمہیں نزلہ زکام تھا۔ تم نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ اعجاز: میں اس سلسلے میں کبھی کبھار ایک آدھ بار چھینک لیتا ہوں۔
ایک ماں نے
ایک ماں نے اپنے بچے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ یاد رکھو بیٹا ہم اس دنیا میں دوسروں کی بھلائی کے لیے آئے ہیں۔ بچے نے تھوڑی دیر سوچا پھر بولا۔ اور امی دوسرے یہاں کس لیے آئے ہیں۔
ڈاکٹر
ڈاکٹر مریض کے معائنے کے لیے اس کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بچوں کے شوروغل کی وجہ سے کمرے میں ہنگامہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر نے یہ صورتحال دیکھی تو مریض سے بولا۔ محترم! آپ کو مکمل آرام کی ضرورت ہے میری رائے یہ ہے کہ آپ کل سے اپنا دفتر جوائن کر لیں۔
جج ملزم سے
جج (ملزم سے) ”تم نے بٹوا چرا کر اسے مارا پیٹا کیوں؟“ ملزم! ”جناب! اس لیے کہ بٹوا خالی تھا۔“
0 Response to "اردو لطیفے - پارٹ 14"
Post a Comment