
اوروں کا ہے پيام اور ، ميرا پيام اور ہے
اوروں کا ہے پيام اور ، ميرا پيام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
طائر زير دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
يہ بھی سنو کہ نالۂ طائر بام اور ہے
آتی تھی کوہ سے صدا راز حيات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے ، اس کا نظام اور ہے
موت ہے عيش جاوداں ، ذوق طلب اگر نہ ہو
گردش آدمی ہے اور ، گردش جام اور ہے
شمع سحر يہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کدۂ نمود ميں شرط دوام اور ہے
بادہ ہے نيم رس ابھی ، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کليسيا ابھی
0 Response to "اوروں کا ہے پيام اور ، ميرا پيام اور ہے"
Post a Comment