-->
بے چارہ جاسوس

بے چارہ جاسوس



بے چارہ جاسوس 

کرم دین اور اس کی بیوی کی ساری زندگی شفقت صاحب کے خاندان کی خدمت کرتے گزری تھی-ان دونوں کو شفقت صاحب کے والد نے اپنی کوٹھی پر ملازم رکھا تھا- وہ بے چارے تو انتقال کر گئے تھے مگر کرم دین اور اس کی بیوی ابھی تک اسی گھرانے میں تھے- شفقت صاحب دونوں میاں بیوی کی بہت عزت کرتے تھے کیوں کہ انھیں ان کے والد نے ملازم رکھا تھا-کرم دین کی ایک لڑکی بھی تھی جس کا نام رضیہ تھا- وہ اب جوان ہوگئی تھی اور کرم دین کو اس کی شادی کی فکر لگ گئی تھی- اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے رشتے داروں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ رضیہ کے لیے کوئی مناسب سا لڑکا دیکھیں- پھر ایک روز چند عورتیں کرم دین کے کوارٹر میں آئیں- وہ رضیہ کو دیکھنے آئی تھیں- کرم دین کوٹھی کے عقب میں بنے سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا- یہ کوارٹر دو کمروں پر مشتمل تھا- ان عورتوں نے رضیہ کو دیکھا- رضیہ انھیں اتنی پسند آئی کہ اسی وقت ان عورتوں نے اسے اپنے بھائی کے لیے مانگ لیا- ان کے بھائی کا نام شریف تھا اور شکل سے بھی وہ شریف نظر آتا تھا- کرم دین اور اس کی بیوی نے ایک ہفتہ بعد لڑکے کا فوٹو دیکھ کر یہ رشتہ منظور کر لیا-رضیہ کی شادی کی خبر کوٹھی تک بھی پہنچ گئی تھی- بیگم شفقت نے کرم دین کی بیوی کو مبارک باد دی اور کہا کہ وہ جہیز وغیرہ کی طرف سے فکرمند نہ ہو، وہ اس کی ہر ممکن امداد کریں گی- وہ رضیہ کو اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھیں- شام کو شفقت صاحب گھر آئے تو یہ خبر انھیں بھی سنائی گئی- انہوں نے بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا مگر ان کے ایک سوال نے سب کو پریشان کردیا- سوال یہ تھا کہ لڑکا کرتا کیا ہے؟کرم دین کی بیوی کو بلایا گیا- بیگم شفقت نے اس سے سوال کیا-"بوا اور تو سب ٹھیک ہے مگر یہ لڑکا کام کیا کرتا ہے؟"-کرم دین کی بیوی بھی پریشان ہو گئی- اس کی پریشانی شفقت صاحب کے پندرہ سولہ سالہ لڑکے راحت نے بھانپ لی تھی- وہ بولا-"بوا تم پریشان کیوں ہوتی ہو، بابا کرم دین سے پوچھ لو ممکن ہے انھیں پتہ ہو کہ لڑکا کیا کرتا ہے!"-کرم دین کی بیوی بھاگی بھاگی کرم دین کو بلا کر لے آئی اور اسے سب کے سامنے کھڑا کر دیا-کرم دین کے سامنے جب یہ سوال دوہرایا گیا تو وہ سر کھجا کر بولا-"بات یہ ہے صاحب کہ ان لڑکے والوں کو میرے چھوٹے بھائی نے بھیجا تھا اس لیے میں نے بھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان سے سوال کروں کہ لڑکا کرتا کیا ہے؟ بہرحال کچھ نہ کچھ تو وہ کرتا ہی ہوگا- آخر کو اس کا ذاتی مکان ہے- مکان میں بجلی گیس پانی کا نل سب ہی کچھ تو موجود ہے"- "دیکھو بابا"- شفقت صاحب نے کہا- "شادی بیاہ گڑیا گڈے کا کھیل نہیں ہوتا- شادی سے پہلے ہر قسم کی چھان بین کرلینا اچھا ہوتا ہے تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو- بات پکی کرنے سے پہلے یہ انتہائی ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ لڑکا کیا کرتا ہے- خیر تم اپنے بھائی سے معلوم کرو کہ لڑکا کیا کرتا ہے"-"بات تو تقریباً پکی ہو چکی ہے"- کرم دین گھبرا کر بولا- "اب اگر میں نے اس قسم کی پوچھ گچھ کی تو سب لوگ مجھے بے وقوف بنائیں گے کہ جو بات مجھے پہلے معلوم کرنا تھی وہ میں بعد میں معلوم کر رہا ہوں- میرا بھائی اچانک کسی کام سے باہر چلا گیا ہے- اس کے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ لڑکا کیا کام کرتا ہے"- راحت جو یہ گفتگو سن رہا تھا بول اٹھا-"یہ کام میں اپنے ذمے لیتا ہوں- میں کل تک آپ کو بتادوں گا کہ وہ لڑکا جس سے رضیہ باجی کی شادی طے پائی ہے کرتا کیا ہے"-"تم کس طرح بتا دو گے؟"- بیگم شفقت نے حیران ہو کر پوچھا-راحت کے سر پر ہر وقت جاسوسی ناولوں کا بھوت سوار رہتا ہے"- شفقت صاحب نے ہنس کر کہا- یہ اس معاملے میں سراغرسانی فرمائیں گے"-"نہ صرف یہ کہ وہ کرتا کیا ہے بلکہ تھوڑا بہت اس کے کیریکٹر کے متعلق بھی آپ لوگوں کو کل تک پتہ چل جائے گا"- راحت نے اکڑ کر کہا- "بس بابا تم مجھے اس کا پتہ بتا دو"-کرم دین نے نہ صرف اس کو شریف کے گھر کا پتہ بتادیا بلکہ ان بسوں کے نمبر بھی بتا دیے جو اس کے گھر کے قریب والے اسٹاپ پر رکتی تھیں-راحت کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا- اس کو یہ یقین تھا کہ وہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر شریف کے متعلق بہت کچھ معلوم کر سکتا ہے- چونکہ اس کام میں جاسوسی کا عمل دخل ہوگیا تھا- اس لیے وہ اپنے اندر عجیب طرح کا جوش محسوس کرنے لگا تھا- اس کو جاسوسی اور سراغرسانی کا بہت شوق تھا- یہ شوق اس کو اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول پڑھ پڑھ کر ہوا تھا- محمود، فاروق اور فرزانہ اس کے پسندیدہ کردار تھے- ان کے عجیب و غریب کارنامے پڑھ کر اس کی حالت غیر ہوجاتی تھی- وہ بھی خواہش کرنے لگتا کہ اس کے خاندان میں بھی کوئی انسپکٹر وغیرہ ہوتا تو کتنا مزہ آتا- وہ اپنے اس رشتے دار انسپکٹر کے ساتھ مل کر بڑے بڑے مجرموں کا پتہ پانی کردیتا اور دنیا بھر میں اس کی واہ واہ ہوتی- مگر کافی تلاش کے باوجود بھی اس کو اپنے خاندان میں کسی ایسے رشتے دار کا پتہ نہ مل سکا جو پولیس میں ہوتا- اب وہ اپنے اس شوق کی تسکین یوں کیا کرتا تھا کہ بستر پر آرام سے لیٹ کر اپنے ذہن سے بڑے بڑے مجرم تخلیق کرتا اور پھر ان کی نگرانی کر کے ان کے جرائم کا پتہ لگا کر لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے اس قدر پٹائی کرتا کہ مارتے مارتے وہ خود بے سدھ ہوجاتا اور نیند اس کو آلیتی- ہر رات اس کا یہ مشغلہ نو دس بجے شروع ہوتا اور بارہ ایک بجے تک تمام مجرم اس کی گرفت میں آجایا کرتے تھے- اب قسمت نے ایک نہایت اہم معاملہ جس میں سراغرسانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، اس کے سپرد کیا تھا- اس کے پاس صرف چوبیس گھنٹے تھے- وہ اپنے آپ کو کافی چاق و چوبند محسوس کر رہا تھا- وہ سوچنے لگا کہ اس کام کی ابتدا کہاں سے کرے- اس نے اپنے محبوب کرداروں کے بارے میں سوچا کہ اس طرح کے معاملات میں وہ کیا کرتے تھے تو اس کو یاد آیا کہ وہ لوگ پریشانی کے عالم میں پارکوں میں نکل جایا کرتے تھے، وہاں کا پرسکون ماحول ان کے ذہنوں کو ڈھنگ کی بات سوچنے کے قابل بنا دیتا تھا- وہ فوراً تیار ہو کر اپنے گھر کے پاس واقع پارک میں جانے کے ارادے سے گھر سے باہر نکلا مگر اس نے چند ہی قدم اٹھائے تھا کہ اسے یاد آگیا کہ محمود، فاروق اور فرزانہ باہر جاتے ہوئے اپنی امی سے اجازت ضرور لیتے تھے- یہ سوچ کر وہ واپس گھر میں آیا اور اپنی امی سے مخاطب ہو کر بولا- "امی میں پارک میں چلا جاوٴں؟"- وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگیں- پھر بولیں- "تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے- اس سے پہلے تو تم نے میری اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی- آنکھ بچا کر گھر سے باہر نکل جاتے تھے"- راحت خاموشی سے ان کی شکل تک رہا تھا- وہ پھر بولیں-"یوں لگتا ہے کہ تم اب اچھے بچے بنتے جا رہے ہو- جاوٴ مگر جلدی آنا- رات ہونے والی ہے"- راحت فاروق کی طرح چلتا ہوا، محمود کی طرح چاروں طرف دیکھتا ہوا اور فرزانہ کی طرح سوچتا ہوا بخیر و عافیت پارک میں پہنچا- پاک کافی آباد تھا- وہ ایک طرف بیٹھ گیا- اس کو وہاں بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ایک ہلتے جلتے نوجوان کو دیکھا- وہ پارک کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھا اپنی ٹانگیں تھرکا رہا تھا، چٹکیاں بجا رہا تھا اور ساتھ میں سر بھی ہلا رہا تھا- راحت کو اس پر بڑا ترس آیا- یا تو وہ کوئی نشے باز تھا یا پھر کوئی نیم دیوانہ، اس کی شکل و صورت ٹھیک ٹھاک تھی- جسم پر کپڑے خاصے معقول تھے، بس خرابی تھی تو صرف ہاتھ پاوٴں اور سر میں جو اب بھی ہلے جا رہے تھے- پھر ایک وہ شخص گھاس پر سے اٹھا اور بدستور ہاتھوں پاوٴں اور سر کو ہلاتا ہوا آنکھیں بند کر کے پارک کے گیٹ کی طرف چل دیا- راحت کو خدشہ ہوا کہ وہ اس کیفیت میں گر نہ پڑے، اس لیے وہ اس کو سہارا دینے کے لیے لپک کر آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا- اس نوجوان نے چونک کر اپنی آنکھیں کھول دیں- اور اب اس کی آنکھیں راحت کو گھورنے کے کام آ رہی تھیں-"کیا بات ہے؟ کیوں پکڑا تم نے میرا ہاتھ؟" "مم- مم- میں آپ کو گیٹ تک چھوڑنے جا رہا تھا"-اس نوجوان نے شاید اس کی بات نہیں سنی تھی، ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کرتے ہوئے اس نے اپنے کان سے ایئر فون نکالا- ایئر فون دیکھ کر راحت چونک پڑا- دوسری طرف کے کان لگا ہونے کی وجہ سے ایئر فون اسے نظر نہیں آیا تھا-نوجوان بولا- "اب بتاوٴ تم کیا کہنا چاہ رہے تھے؟"- ایئر فون کے ساتھ ہی راحت کو اس نوجوان کے پہلو سے لٹکا ہوا چھوٹا سے ٹیپ ریکارڈر بھی نظر آگیا تھا- جس میں کیسٹ لگی تھی اور جس کی لے پر وہ نوجوان تھرک رہا تھا- اب راحت کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں رہا تھا اس لیے وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر بھاگ اٹھا- لیکن اس کا پارک میں آنا بے سود نہیں رہا تھا- اس کے دماغ میں یہ خیال آگیا تھا کہ جب وہ شریف کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے نکلے گا تو اپنا جیبی ٹیپ ریکارڈر بھی ساتھ لے جائے گا اور یہ خیال اس کو پارک میں اس نوجوان کا ٹیپ ریکارڈر دیکھ کر ہی آیا تھا- وہ اب اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ محمود وغیرہ پارکوں میں کیوں آیا کرتے تھے- اس نے یہ فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ وہ آئندہ بھی جب کبھی کوئی مسلہ درپیش ہوگا پارک ہی میں آیا کرے گا- گھر سے اس نے اپنا جیبی ٹیپ ریکارڈر لیا اور پھر ایک بس پکڑ کر اس علاقے کی طرف چل دیا جہاں شریف کا گھر تھا- شریف کا گھر ڈھونڈنے میں اسے کوئی دشواری نہ ہوئی- اس کا ارادہ تھا کہ وہ پاس پڑوس کے لوگوں سے شریف کے بارے میں معلومات حاصل کرے گا مگر رات ہو چکی تھی اور یہ وقت تھا ٹی وی کے ایک مقبول ڈرامے کا- اس لیے اس محلے کے ایک گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند تھے، کیوں کہ اندر گھروں میں ٹی وی کھلے ہوئے تھے- اس نے اس دروازے سے اندر جھانکا تو پورے گھر میں تاریکی نظر آئی- سوائے ایک کمرے کے جو دالان کے دوسری طرف تھا- اس میں راحت کو ایک شخص کی شکل نظر آئی- اس شخص کے چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں- وہ کسی بات پر ہنس رہا تھا جس کی وجہ سے راحت نیدور ہی سے اس کے سفید دانتوں کی ایک جھلک دیکھ لی تھی- وہ کانپ اٹھا- دل تو اس کا یہ چاہا کہ وہاں سے بھاگ لے مگر اس کا جذبہ تجسس بیدار ہوگیا تھا- دو باتوں نے اس کو پریشان کردیا تھا- پہلی تو یہ تھی کہ وہ شخص اتنے خوفناک انداز میں ہنسا کیوں- دوسری یہ کہ اس قدر خوفناک شخص کو شریف کے گھر آنے کی کیا ضرورت تھی-ہمت کرکے وہ اندر داخل ہوا- تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ دالان سے گزر کر اس کمرے کی دیوار تک پہنچ گیا- تھوڑی سی گردن نکال کر اس نے اندر جھانکا تو اسے شریف بھی نظر آگیا، وہ بستر پر کمبل اوڑھے لیٹا تھا- راحت کو اچانک ٹیپ ریکارڈر کا خیال آگیا- اس نے اس کو جیب سے نکال کر ریکارڈنگ اور پلے کا بٹن دبا دیا اور دم سادھ کر بیٹھ گیا- تھوڑی دیر بعد کمرے میں کسی کے کھانسنے کی آواز آئی- راحت نے جھانک کر دیکھا وہ شریف تھا- اچھی طرح کھانسنے کے بعد اس نے دوسرے شخص سے کہا-"اکیلے شخص کے ساتھ یہ بھی مصیبت ہوتی ہے کہ بیمار پڑ جائے تو کوئی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ہوتا"- "تم اپنے کسی رشتے دار کو کیوں نہیں بلا لیتے؟"- دوسرے شخص نے کہا- "سب لوگ اپنے اپنے دھندوں میں لگے ہوئے ہیں- بہن تھیں وہ بیماری میں خدمت کردیا کرتی تھیں- اب ان کی بھی شادی ہوگئی ہے"- "خیر اب یوں سمجھو کہ تمہاری مصیبت کے دن ختم ہوئی- تمھاری شادی ہونے والی ہے- اب تو تمہاری گھر والی خود ہی تمہاری خدمت کیا کرے گی"- دوسرے شخص نے کہا- پھر وہ اٹھتے ہوئے بولا- "اچھا میں چلتا ہوں- اگر صبح تک تمہاری طبیعت سنبھل جائے تو پریس ضرور پہنچ جانا- کل سو سو روپے کی سیریز چھپنا ہے- صاحب تمہارے کام سے بہت خوش ہیں- بڑے نوٹ چھاپتے ہوئے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ تم موجود رہو"راحت کے رونگٹے کھڑے ہوگئے- اس شخص کی آخری بات ہی اس قدر سنسنی خیز تھی، وہ لرز کر رہ گیا- "تو یہ شریف صاحب نوٹ چھاپنے والے گروہ کے ایک رکن ہیں"- اس نے سوچا- اچانک اس کے کانوں میں شریف کی آواز آئی- "بڑے نوٹ چھاپتے ہوئے کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے- میں وہاں پہنچنے کی پوری کوشش کروں گا، اگر نہ پہنچ سکا تو تم دین محمّد سے کہہ کر دس دس روپے والے نوٹوں کی کم سے کم دو لاکھ روپے کی گڈیاں بنوا لینا"-"ٹھیک ہے"- دوسرے شخص نے کہا-وہ رخصتی مصافحہ کرنے لگے تو راحت لرزتا کانپتامیلے کپڑوں کے ڈھیر میں دبکنے کی کوشش کرنے لگا جو ایک طرف پڑے تھے- شریف اپنے ساتھی کو دروازے تک چھوڑنے آیا اور پھر دروازہ بند کرکے واپس اپنے کمرے میں آگیا- موقع غنیمت دیکھ کر راحت نے دروازہ کی طرف دوڑ لگا دی- دروازے میں دو کنڈیاں تھیں- ایک اوپر لگی تھی دوسری دروازے کے بیچ میں- راحت نے پہلی کنڈی کھولی تھی- دوسری کھولنے والا تھا کہ اپنے عقب میں اس کو قدموں کی چاپ سنائی دی- خوف و دہشت کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی- اس نے گھوم کر دیکھا تو وہ شریف تھا- راحت نے پھرتی سے دوسری کنڈی بھی کھولی اور دروازہ کھول کر باہر چھلانگ لگادی- شریف ارے ارے کہتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا- مگر راحت تو جیسے اڑا جا رہا تھا- وہ مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا سڑک پر آیا- خوش قسمتی سے اس کو ایک بس مل گئی- وہ لپک کر اس میں بیٹھ گیا- سیٹ پر بیٹھ کر اس نے گھوم کر دیکھا- شریف دور کھڑا حیرت اور پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا-راحت گھر پہنچا تو ساڑھے نو ہو رہے تھے- اس کی گمشدگی نے سب کو پریشان کردیا تھا- ابھی تک کسی نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا- اس کو دیکھ کر سب کے چہرے کھل اٹھے-"ارے بھئی تم تو پارک کا کہہ کر گئے تھے"- شفقت صاحب نے کہا- "وہاں سے کہاں چلے گئے تھے؟"-"میں معلوم کرنے گیا تھا کہ وہ شریف صاحب کرتے کیا ہیں؟"- راحت نے شان بے نیازی سے کہا-"تو معلوم کرلیا؟"- بیگم شفقت نیجلدی سے پوچھا-"جی ہاں"- راحت نے آنکھیں مچ مچا کر سب کو دیکھا- "وہ نوٹ چھاپتے ہیں- سو سو کے بھی اور دس دس کے بھی"-اس انکشاف نے سب کو جیسے پتھر کا بنا دیا- کرم دین اور اس کی بیوی بھی وہیں کھڑے تھے- ان کے چہرے بھی فق ہوگئے- شفقت صاحب نے کہا- "یہ کیا سنادیا تم نے؟ شریف نوٹ چھاپتا ہے؟"-"بس اس کو اتفاق ہی کہہ لیں کہ میں عین اس وقت اس کے گھر پہنچ گیا جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ باتیں کر رہا تھا- ان کی باتیں میں ٹیپ بھی کر لایا ہوں"-یہ کہہ کر راحت نے جیب سے ٹیپ ریکارڈر نکالا اور اس کو میز پر رکھتے ہوئے اس کا پلے کا بٹن دبا دیا- سب لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ٹیپ کی طرف متوجہ ہوگئے، مگر یہ کیا؟ اس میں سے بجائے شریف اور اس کے دوست کی گفتگو کے، ایک گانے کی آواز آنے لگی-یہ کیا بیہودگی ہے؟"- شفقت صاحب کا سسپنس گانے کی وجہ سے مجروح ہوگیا تھا، وہ منہ بنانے لگے- ایک لمحے کو تو راحت پریشان ہوگیا مگر پھر مسکرا کر بولا- "میں اس کو ریورس کرنا بھول گیا تھا"- کیسٹ کو ریورس کر کے اس نے دوبارہ چلا دیا- ٹیپ سے کھانسنے کی آوازیں آنے لگیں- "یہ یہ شریف کھانس رہا ہے"- راحت نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے بتایا-شفقت صاحب نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور غور سے سننے لگے- کیسٹ پر ٹیپ کی ہوئی شریف اور اس کے دوست کی گفتگو ختم ہوئی تو وہاں پر موجود تمام لوگ پریشان نظر آنے لگے- شفقت صاحب کچھ سوچ رہے تھے- تھوڑی دیر بعد انہوں نے کہا- "تم نے تو بڑا کمال کر دکھایا راحت!- ہم تو سمجھ رہے تھے کہ جاسوسی ناولیں تمہیں بگاڑ رہی ہیں مگر تم تو نہایت سمجھدار ہوتے جا رہے ہو- نہ صرف تم نے بابا کرم دین کو تباہی سے بچا لیا بلکہ ایک ایسے گروہ کا بھی پتہ چلا لیا جو نوٹ چھاپتا ہے- میں ابھی پولیس کو اطلاع دیتا ہوں"-راحت کا سر فخر سے بلند ہوگیا- اس کی امی نے محبّت سے اسے لپٹا لیا اور ادھر کرم دین اور اس کی بیوی ابھی تک ہکا بکا تھے- انھیں اللہ میاں نے بال بال بچایا تھا- وہ یہ کیسے برداشت کرتے کہ ان کی بیٹی ایک جرائم پیشہ کی بیوی بنے-شفقت صاحب پولیس کو فون کرنے کے لیے اٹھنے ہی والے تھے کہ ان کے ڈرائیور نے آکر اطلاع دی کہ کرم دین سے اس کا چھوٹا بھائی سردار ملنے آیا ہے-"یہ ہی اس ساری مصیبت کی جڑ ہے"- کرم دین نے تلملا کر کہا- "اسی نے ان لوگوں کو ہماری بیٹی کا رشتہ لینے کے لیے بھیجا تھا- معلوم ہوتا ہے کہ یہ واپس آگیا ہے"- "اس کو ادھر بھیج دو"- شفقت صاحب نے کہا- ڈرائیور چلا گیا- تھوڑی دیر بعد سردار وہاں آیا اور سلام کر کے ایک طرف کھڑا ہوگیا-غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے کرم دین نے سردار سے کہا- "تم نے ہی شریف کی بہن کو یہاں بھیجا تھا نا رضیہ کے رشتے کے لیے- تمہیں پتہ بھی ہے کہ وہ کیا کرتا ہے؟"-سردار کے چہرے پر حیرت کے تاثرات تھے- وہ کرم دین کے غصے سے بھی بہت ڈرتا تھا، دھیرے سے بولا-"بھائی صاحب- شریف کو میں برسوں سے جانتا ہوں- اس کا باپ میرے ساتھ دولت پور کے ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتا تھا- وہ بے چارہ تو فوت ہوگیا تھا- مرنے سے پہلے اس کی یہ خواہش تھی کہ اس کا لڑکا بھی قلی بنے مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا- وہ اس شہر میں چلا آیا اور یہاں پر ایک سرکاری ملازمت کرلی- اس کی بہن اور وہ مجھے باپ کی طرح سمجھتے ہیں"- کرم دین اس کو گھورتے ہوئے بولا-"تم نے تو ہمیں تباہ کرنے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی تھی- وہ سرکاری ملازمت نہیں کرتا ہے سردار وہ نوٹ چھاپتا ہے نوٹ"-"تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے بھائی صاحب"- سردار نے الجھ کر پوچھا- "کیا تم لوگوں کو اس کی بہن نے نہیں بتایا تھا کہ وہ سیکورٹی پرنٹنگ پریس میں ملازم ہے- وہاں نوٹ ہی چھاپے جاتے ہیں"-سردار کی بات سب سے پہلے شفقت صاحب کی سمجھ میں آئی تھی- وہ بڑی زور سے قہقہہ مار کر ہنسنے لگے- سردار حیرت سے ان کی شکلیں دیکھ رہا تھا- راحت شرمندہ ہو کر سر کھجانے لگا- 


Baca Juga







Related Posts

0 Response to "بے چارہ جاسوس "

Post a Comment

Iklan Atas Artikel

Iklan Tengah Artikel 1

Iklan Tengah Artikel 2

Iklan Bawah Artikel