
اردو لطیفے - پارٹ 7
درخواست
ایک لڑکا سائیکل پر اسکول جا رہا تھا کہ راستے میں بارش ہو گئی اور وہ گر پڑا لہٰذا اس نے سوچا کہ اسکول پہنچنے میں دیر ہو جائے گی۔ اس لئے کیوں نہ چھٹی کی درخواست دے دوں۔
اس نے لکھا۔ مائی ڈئیر ماسٹر، ہپ ہپ واٹر۔ چھم چھم ہو گیا دھڑم سو آئی ایم کین ناٹ کم۔ سینڈی تانگہ، آئی ول کم۔ یوراسٹوڈنٹ، ایم نجم۔
کھارا،باسی، مہنگا
ایک صاحب کے یہاں تین نوکر تھے۔ ایک کا نام کھارا، دوسرے کانام باسی اور تیسرے کا نام مہنگا۔ ایک دفعہ ان کے یہاں ایک مہمان تشریف لائے۔ صاحب نے نوکروں سے کہا کہ جلدی سے کھانا تیار کرو جب مہمان کھانے کی میز پر بیٹھے تو صاحب نے کہا! کھارا۔
پانی لے آؤ۔ مہمان نے کہا نہیں نہیں مجھے پیاس نہیں لگ رہی۔ تھوڑی دیر بعد صاحب نے کہا باسی۔ کھانا لے آؤ۔ “مہمان یہ سن کر میز پر سے اٹھے اور کہنے لگے مجھے بھوک نہیں ہے میں گھر جا رہا ہوں پھر صاحب نے کہا ”مہنگا رکشہ لے آؤ ۔“ یہ سنکر مہمان رفو چکر ہو گئے۔
یاداشت
تنہائی میں جب وہ اپنی محبوبہ کے حسن کے قصیدے جی بھر کے پڑھ چکا تو محبوبہ نے پوچھا کیا میں سچ مچ پہلی لڑکی ہوں۔ جس کی تم نے اس قدر تعریفیں کیں ؟ نوجوان نے چند لمحے سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ہو بھی سکتی ہو۔ میری یاداشت اتنی تیز نہیں۔
لفٹ
ایک سنسان سڑک پر ایک خوبصورت عورت اکیلی چلی جا رہی تھی کہ اس کے قریب ایک کار آکر رکی۔ کار چلانے والے نوجوان نے شائستگی کے ساتھ کہا۔ لفٹ چاہیے تو حاضر ہے۔ عورت نے جواب دیا۔ شکریہ ابھی ا بھی ایک صاحب نے لفٹ دے کر میری مدد کی تھی اور میں وہیں سے آرہی ہوں۔
انگلیاں
ایک صاحب نے کہیں راستے میں ایک جیتی جا گتی قیامت کو دیکھا تو ان کا دل مچل گیا۔ انہوں نے عاشقانہ بانکپن کے ساتھ اسے اشاروں کی زبانی محبت کا اظہار کیا۔
لڑکی نے جواب میں پانچ انگلیاں دکھائیں۔ ان صاحب نے پانچ روپے کا نوٹ لڑکی کی طرف بڑھا دیا اور اگلے ہی لمحے ان کے گال پر پانچ انگلیوں کے نشان ابھر آئے۔
پھٹیچر کار
ایک دوپہر کو ایک پرانی پھٹیچر کارنئی دہلی کے ایک ریستوران کے سامنے آکر رکی۔ اس زنگ آلود کار کی چھت کا کپڑا تار تار تھا اور انجن سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ۔ کار چلانے والا اتر کر قریب کھڑے ہوئے ایک آدمی سے کہنے لگا۔ بھائی ذرا کار کا دھیان رکھنا۔ میں ابھی ٹیلیفون کر کے واپس آیا۔
اس آدمی نے حامی بھرلی جب کار چلانے والا ٹیلیفون کر کے واپس آیا تو اس آدمی نے دس روپے طلب کیے۔ کار چلانے والے نے حیران ہو کر کہا۔ دس روپے یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ میں نے تو دس منٹ بھی نہیں لگائے۔ اس آدمی نے جواب دیا۔ جناب میں وقت کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس وقت خفت کا معاوضہ طلب کر رہا ہوں۔ جو مجھے اس کار کے پاس کھڑے رہنے سے ہوئی۔ سب لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ کاری میری ہے۔
ریڈ انڈین
امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر کے ریلوے پلیٹ فارم پر ایک ریڈانڈین مگن لیٹا ہوا دھوپ سینک رہا تھا۔ ایک سیاح نے اس سے کہا سنو بھئی تم کوئی روزگار تلاش کیوں نہیں کرتے۔ ریڈانڈین نے آنکھیں کھول کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔ کیوں آخر میں کام کیوں کروں۔ سیاح نے جواب دیا۔
کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ بینک میں تمہاری کچھ رقم ہو۔ ریڈ انڈین بولا۔ کیوں رقم کی مجھے کیا ضرورت ہے۔ سیاح لیکن بوکھلا کر کہا۔ تاکہ تم باقی زندگی آرام سے بسر کر سکو اور پھر تمہیں کبھی کام نہ کرنا پڑے ریڈ انڈین بولا۔ لیکن کام تو میں آج بھی نہیں کر رہا ہوں۔
سگریٹ
پیرس کے ایک پارک میں ایک نوجوان جوڑا ایک گھنے کنج میں بیٹھا راز ونیاز کی باتیں کر رہا تھا۔ ایک ہندوستانی سیاح نے لطف کی خاطر چھپ کر ان کی باتیں سننے اور انکی حرکتوں کا جائز ہ لینے کی ٹھانی۔ لڑکا کہہ رہا تھا۔ بس صرف ایک اور لڑکی نے پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
ادھر ہندوستانی سیاح کا اشتیاق برابر بڑھ رہا تھا۔ اسے ایسی بات کی توقع تھی۔ جو اس ماحول میں ممکن ہو سکتی تھی لیکن جب لڑکی نے لڑکے کے مسلسل اصرار پروضاحتی جواب دیا۔ توہندوستانی سیاح بجھ کر رہ گیا۔ جواب یہ تھا۔ عجیب خود غرض آدمی ہو صرف ۔ ایک سگریٹ ہی تو باقی رہ گیا ہے۔ میں گھر جا کر رات کے کھانے کے بعد کیا پیوں گی۔
ریفری
ایک کلرک اسٹیڈیم میں بیٹھا فٹ بال کا مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ کہ یکا یک پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تو اس کی روح فنا ہو گئی۔
اس کاا فسر اس سے کہہ رہا تھا۔ تم یہاں کیسے ؟تم نے تو کہا تھا کہ تمہیں اپنے چچا کے جنازے میں شرکت کرنا ہے۔ کلرک بولا۔ ہو بھی سکتا تھا۔ میرے چچا س مقابلے میں ریفری ہیں۔
قومی ترانہ
امریکہ میں ایک فوجی کیمپ کے قریب ایک شخص مشتبہہ حالت میں گھومتا ہوا پکڑا گیا۔ اسے پوچھ گچھ کے لئے کمانڈنگ افسر کے سامنے پیش کیا گیا۔ کمانڈنگ افسر نے اس سے پوچھا۔
تم کوئی غیر ملکی ہویا امریکی ؟اس شخص نے امریکی ہونے کا دعویٰ کیا تو کمانڈنگ افسر نے کہا۔ اچھا تو ذرا ہمارا قومی ترانہ، ستاروں بھرا جھنڈا، تو سناؤ۔ اس شخص نے شرمندہ ہو کر اعتراف کیا۔ وہ تو مجھے یاد نہیں۔ کمانڈنگ افسر نے کہا۔ تم جا سکتے ہو۔ مجھے یقین آگیا ہے کہ تم امریکی ہی ہو۔
نائی
پارک میں ایک نوجوان نے کسی طرح ایک خوبصورت لڑکی سے باتیں کرنے کا راستہ نکال ہی لیا۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا۔ ہر بڑے شہر میں میرا کاروبار ہے بیس جگہوں پر میری کوٹھیاں ہیں۔ جب بھی تم مجھ سے ملنا چاہو۔
مجھے ٹیلیفون کر دینا میری رولز رائس کار تمہیں لینے کے لئے پہنچ جائی گی۔ لڑکی نے مرعوب ہوتے ہوئے پوچھا آپ کا فون نمبر کیا ہے ایک کاغذ کے پرزے پر فون نمبر لکھ کر لڑکی کو تھماتے ہوئے نوجوان نے کہا۔ یہ نمبر اس نائی کی دوکان کا ہے جس کے اوپر کے کمرے میں رہتاہوں وہ مجھے بلا دے گا۔
رنگ
ضرورت مند بیوہ کی کو خون کی ضرورت تھی ایک کنجوس نے اپنا خون دے کر اس کی جان بچائی۔ بیوہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے کنجوس کو ایک ہزار روپے انعام دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد بیوہ کو دوبارہ خون کی ضرورت پڑی۔ کنجوس کو پانچ سو روپے دیے۔
حسن اتفاق سے بیوہ کو تیسری مرتبہ پھر خون کی ضرورت پڑی اور وہی آڑے وقت میں اس کے کام آیا۔ اس مرتبہ بیوہ نے اسے ایک پیسہ بھی نہ دیا اور پیار بھری نظروں سے دیکھ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ کیونکہ اس کی رگوں میں موجود کنجوس کا خون اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔
کپڑے
ایک شخص (سپاہی سے) اگر نلکے پر نہانا منع ہے تو آپ نے اس وقت کیوں نہ بتایا جب میں کپڑے اتار رہا تھا۔ سپاہی:نہانا منع ہے، کپڑے اتار نا نہیں۔
گینڈا
جج:(ملزم سے)”تم نے اس آدمی کے منہ پر گھونسا کیوں مارا؟“ ملزم :” جناب اس نے آج سے دو سال پہلے مجھے گینڈا کہا تھا۔ “ جج:” اگر دو سال پہلے کہا تھا تو اب مارنے کا کیا جواز تھا؟“ ملزم :”جناب میں نے آج ہی گینڈا دیکھا ہے۔ “
چوہیا
ایک آدمی رات کو سو رہا تھا کہ اس کے اوپر سے ایک چوہیا گزر گئی۔ تو اس نے اٹھ کر شورمچانا شروع کر دیا۔ لوگوں نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں، چوہیا ہی تو گزری ہے۔
وہ صاحب چیخ کر بولے۔ ”آج میرے اوپر سے چوہیا گزری ہے، کل کو بلی گزرے گی پھر کتا گزرے گا۔ پھر گدھا گھوڑا اور پھر بسیں اور ٹرک گزرنے لگیں گے۔ میں تو پل بننا پسند نہیں کروں گا۔ “
دھکا
کشتی کے ذریعے کچھ عورتیں اور مرد دریا پار کر رہے تھے۔ ان میں ایک سکھ نوجوان بھی شامل تھا۔ کشتی جو نہی دریا کے وسط میں پہنچی ایک عورت کا بچہ دریا میں گر گیا۔ اس نے چلانا شروع کر دیا کہ خدا کے لئے کوئی میرے بچے کو بچائے۔ اچانک سکھ نوجوان دریا میں کو د پڑا۔
اس نے کافی محنت اور جدوجہد کے بعد بچے کو بچا لیا اور اٹھا کر کنارے پر لے آیا۔ لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں اور سکھ نوجوان زندہ باد کے نعرے لگائے، اور کہا کہ تم نے واقعی اپنی جان پر کھیل کر ایک ماں کے بہنے والے آنسوؤں کو روکا ہے، اس کی آنکھ کا تارا اس سے ملایا ہے۔ سکھ نوجوان غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا۔ ”یہ فضول باتیں بعد میں کرنا، پہلے یہ بتاؤ کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا ؟“
نیا چپڑاسی
کلرک نے نئے چپراسی سے دریافت کیا۔ ”کیا صاحب اندر موجود ہیں۔“ چپڑاسی نے کلرک سے پوچھا۔ پہلے یہ بتائیے کہ آپ سیلز مین ہیں۔ بیمہ ایجنٹ ہیں یا صاحب کے کوئی دوست ہیں۔ کلرک کو غصہ آگیا اور وہ بولا۔ ”میں یہ سبھی کچھ ہوں اب بتاؤ کیا کہتے ہو۔“ چپڑاسی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
”اگر آپ سیلز مین ہیں تو صاحب میٹنگ میں ہیں انتظار کر یں ۔ یا پھر کبھی آجائیں۔ اگر آپ بیمہ ایجنٹ ہیں تو آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آج صاحب سے ملاقت نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ صاحب شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہاں اگر آپ صاحب کے دوست ہیں تو میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، اندر تشریف لے جائیں۔ صاحب تشریف فرما ہیں۔
سزائے موت
ایک شخص نے بیمہ کمپنی کے نمائندے سے پوچھا۔ ”اگر میں آج اپنی بیوی کا بیمہ کراؤں اور گل وہ مر جائے تو مجھے کیا ملے گا۔“ نمائندے نے سنجیدگی سے کہا۔ ”غالباً سزائے موت۔ “
کوڑا
ایک امریکن عورت اپنے مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی صاف کر رہی تھی کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے کورے کے ڈرم میں آگری اور وہیں پھنس گئی۔
اتنے میں ادھر سے ایک غیر ملکی سیاح کا گزر ہوا۔ وہ اسے دیکھ کر اپنے ساتھی سے کہنے لگا”یار یہ امریکی لوگ بھی کتنے فضول خرچ ہیں کوڑے میں کتنی اچھی اچھی چیزیں پھینک دیتے ہیں۔
پیریڈ
پروفیسر نے ایک لڑکے سے کہا؟ تم ہر روز پہلے پیریڈ میں دس منٹ دیر سے کیوں آتے ہو؟ لڑکے نے جواب دیا”سر میں تو وقت پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مجبوری یہ ہے کہ گرلز کا کالج دس منٹ دیر سے کھلتا ہے۔
بلیک بورڈ
بچے نے ایک دن گھر آکر شکایت کی کہ اسے اسکول میں بلیک بورڈ نظر نہیں آتا۔ ماں باپ سخت پریشان ہوئے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے ہر طرح کے آلات سے بچے کی آنکھوں کا معائنہ کیا وہ بالکل ٹھیک تھیں۔
ڈاکٹر نے پریشان ہو کر پوچھا؟ بھئی تم ہی بتاؤ تمہیں بلیک بورڈ کیوں نظر نہیں آتا؟ بچے نے معصومیت سے کہا ڈاکٹر صاحب میرے آگے کی سیٹ پر ایک بہت لمبا سا لڑکا جو بیٹھتا ہے۔
دودھ
ایک انگریز جسے صحیح اردو نہیں آتی تھی دکان دار سے بولا۔ اومین !جس کے گوشت کو بیف کہتے ہیں وہ کون سا اینیمل (جانور) ہوتا ہے؟ دکاندار:گائے انگریز: اور اس کے چائلڈ (بچے) کو کیا کہتے ہیں؟ دکاندار:بچھڑا۔
انگریز: اومین !بوچراوہ جو اس کا ڈرنگ کرتا ہے وہ کیا ہوتا ہے؟ دکاندار:دودھ انگریز: اومین پہلے کیوں نہیں بتایا ایک کلو دودھ دو۔
سوراخ
اسکول میں پہلی جماعت میں داخلے کے لئے بچوں کا انٹرویو ہو رہا تھا جب ایک چھوٹے سے بچے کی باری آئی تو میڈم نے اسے اپنے سامنے والی کرسی پر بٹھایا۔ بچے کی ماں میڈم کی کرسی کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور اشارے سے بچے کو جوابات بتانے لگی میڈم نے بچے سے پوچھا۔
منے میاں دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ؟ماں نے فوراً انگلیوں کی مدد سے بچے کو چار کا اشارہ کیا اور بچے نے جواب دیا چار پھر میڈم نے بچے سے پوچھا اچھا تین میں سے اگر دو نکال دو توکتنے بچیں گے ؟ماں نے ایک انگلی کا اشارہ کیا اور بچے نے آرام سے بتا دیا ”ایک “میڈم نے بچے کو شاباش دی پھر پوچھا۔ اچھا دومیں سے دو نکالیں تو کتنے بچیں گے ؟ماں نے فوراً انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے ایک گول دائرہ بنا کر صفر کا اشارہ کیا تو بچے نے کہا سوراخ۔
ایک روپیہ
ایک بچہ حساب کا سوال حل کر رہا تھا لیکن ہر مرتبہ جواب غلط آتا اور ایک روپے کی کمی رہ جاتی، ماسٹر صاحب غصے سے بولے۔ ”جب تک صحیح جواب نہیں نکالو گے، چھٹی نہیں ملے گی“ بچے نے دوسری مرتبہ اور کوشش کی لیکن جواب میں بدستور ایک روپے کی کمی رہی، اس نے تنگ آکر جیب میں سے ایک روپیہ نکالا اور ماسٹر صاحب کی میز پر رکھ کر بولا ”یہ لیجئے ایک روپیہ اور اب مجھے چھٹی دیجئے۔ “
عینک
ایک شخص عمارت کی چوتھی منزل پر کمرے میں پہنچا اور اندر داخل ہو کر سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے کہا۔ ”ڈاکٹر صاحب مجھے دمے کی شکایت ہے۔ سانس پھول جاتا ہے۔
تھوڑے سے کام سے دل دھک دھک کرنے لگتا ہے۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے شخص نے کہا”ورزش کیجئے اور اچھی سی عینک لگوا لیجئے اس لیے کہ ڈاکٹر نچلی منزل پر ہے میں وکیل ہوں۔ “
مینڈک
ایک آدمی مینڈک پر تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے مینڈک کو میز پر رکھا اور اس کے قریب جا کر تالی بجائی۔ مینڈک زور سے اچھلا۔ اس نے مینڈک کی ایک ٹانگ کاٹ دی۔ پھر اس کے قریب جا کر تالی بجائی۔ مینڈک ذرا سا اچھلا اور گر پڑا۔
اب اس نے مینڈک کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی اور قریب جا کر تالی بجائی۔ اس بار مینڈک ذرا سا بھی نہ اچھلا اس آدمی نے یہ تجربہ اپنی نوٹ بک میں یوں لکھا کہ ”اگر مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرہ ہو جاتا ہے۔
0 Response to "اردو لطیفے - پارٹ 7"
Post a Comment